’سیلاب کا پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے میرے 29 ایکڑ رقبے پر موجود آم کے باغات جل چکے ہیں، جس کے باعث تقریباً 12 سال کی محنت 12 دنوں میں تباہ ہوگئی‘، یہ ٹنڈوآلہ یار کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد عثمان کی روداد ہے جن کے ساتھ ایسا دوسری بار ہوا۔
پاکستان میں آم کی فصل دوسری بڑی فصل ہے، جبکہ ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے مطابق پاکستان دنیا میں آم پیدا کرنے والا چھٹا بڑا ملک ہے اور عالمی سطح پر اس کی برآمدات کا حصہ تقریباً 3.5 فیصد بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں لاکھوں روپے فی کلو آم، پاکستان میں یہ خاص فصل کہاں کاشت ہورہی ہے؟
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان کے سائنٹیفک آفیسر عابد حمید خان نے کہاکہ رواں برس ملتان جیسے شہر میں اپریل میں بھی پنکھے نہیں چلے، اس سے قبل دھند کے باعث پھول بہت دیر سے نکلے تھے اور اسی طرح گرمی کا اسپیل مئی میں آیا جس کی وجہ سے سندھڑی آم ٹیڑھا ہونا شروع ہوگیا اور سفید چونسے کو بہت نقصان ہوا۔ کیونکہ گرمی کی وجہ سے سفید چونسا داغدار ہونے لگ گیا تھا۔ جسے ’سن برن‘ بھی کہتے ہیں۔
محمد عثمان کے لہجے سے مایوسی چھلک رہی تھی جب اس نے اسے اللہ کی مرضی قرار دیتے ہوئے کہاکہ اپنی آنکھوں سے اس سارے منظر کو دیکھنا بہت تکلیف دہ تھا کیونکہ وہ اس کی تقریباً 12 سال کی دن رات کی محنت تھی جو اس کی نظروں کے سامنے تباہ ہورہی تھی اور وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پایا۔
ایک سوال پر اس نے بتایا کہ فی ایکڑ پر ایک سے دو درخت ایسے تھے جن پر آم کے کچھ دانے باقی رہ گئے تھے۔ اور وہ بھی صرف اتنے کہ گھر میں کھا لیے جائیں کیونکہ وہ بھی ٹھیک سے پک نہیں پائے تھے۔ انہوں نے مزید کہاکہ آم کے درخت اب صرف لکڑی تک محدود ہوچکے تھے، اور میں نے وہ لکڑیاں بیچ کر اپنا گزارا کیا۔
’میری آمدن آم کے باغات پر منحصر تھی اور اب تیسری بار میں اس زمین میں بیج بورہا ہوں کہ وہ زمین اس قابل ہوجائے کہ میری آمدنی کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے‘۔
سیلاب کا پانی آم کے باغات کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان کے سائنٹیفک آفیسر عابد حمید کا سیلاب کے حوالے سے کہنا تھا کہ جب سیلاب کا پانی آئے اور گزر جائے تو وہ آم کے درخت کو متاثر نہیں کرتا لیکن اگر پانی ہفتوں تک رک جائے تو پھر اس صورتحال میں درخت کی جڑیں گلنا شروع ہو جاتی ہیں اور اوپر سےسوکھنا شروع ہو جاتا ہے۔
عثمان کی آواز میں زرا تھرتھراہٹ سی محسوس ہورہی تھی جب اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ 2011 کے سیلاب کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا، اب زندگی نے ایک بار پھر اس کو اسی چوراہے پر لا کھڑا کردیا جہاں وہ 12 سال قبل کھڑا تھا۔ اور اب ایک بار پھر اس کی 12 سال کی محنت 12 گھنٹوں کے نذر ہوچکی ہے۔
’زندگی کا سارا انحصار وہی آم کے درخت تھے اور اب کمائی کی کوئی امید باقی نہیں رہی، اس زمین کو دوبارہ سے زرخیز بنانے میں تقریباً 4 برس لگیں گے، اور پھر ہی کمائی کی امید ہوگی‘۔
مزید پڑھیں موسمیاتی تبدیلیاں کس طرح غریب کسانوں کے چولہے بجھا رہی ہیں؟
ایک مزید سوال پر اس کا کہنا تھا کہ ساتھ والے گاؤں کا پانی ہمارے گاؤں کی جانب آتا ہے۔ کیوںکہ میرے باغات کے قریب سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اور اس سیلاب کے پانی سے زیادہ تباہی ہوئی تھی۔
’اس نے اپنی محنت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 2011 کے بعد بھی اس نے خود بند باندھا تھا تاکہ بارش کا پانی اس جگہ پر نہ آئے، اس کے 2 سال کے بعد پودا لگا، پھر قلم لگی، اور پھر تقریباً 4 سال کے بعد آم لگنا شروع ہوئے اور 5 سے 6 سال بعد کمائی آنا شروع ہوئی تھی، بہت مشکل وقت گزارا تھا اب بھی گزر ہی جائے گا، اس کی باتوں میں امید کی کرن اب بھی باقی تھی یا شاید وہ خود کو ایک بار پھر طویل عرصے کی محنت کے لیے تیار کررہا تھا‘۔
اس کے دل میں حکومت سے مزید ایک اور خواہش جاگی تھی کہ اس کی زمینوں کے قریب سے گزرنے والی وہ سڑک جو دوسرے گاؤں سے اس کی زمینوں کو جدا کرتی ہے کاش وہ بن جائے۔ کہتا ہے اگر وہ سڑک بن چکی ہوتی تو کبھی بھی بارش کا پانی اس کے باغات میں نہ آتا، اس پانی نے اس کی محنت اگلے 6 سال تک کے لیے ڈبو دی۔ اگر حکومت وہ سڑک بنا دے تو ہماری محنت اور روزگار دونوں محفوظ ہو جائیں گے، کیونکہ اس بار پھر کہا جارہا ہے کہ دوبارہ سیلاب آنے کے امکانات ہیں۔
آم موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے شدید متاثر ہورہا ہے، عابد حمید
آم کی پیداوار کے حوالے سے عابد حمید کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے آم کے باغات کو محفوظ رکھنے کی نئی ٹیکنالوجیز متعارف کروائی جارہی ہیں۔ پنجاب میں تو اس حوالے سے بہت زیادہ کام ہورہا ہے، کیونکہ پنجاب کا آم کی پیداوار میں 70 فیصد حصہ ہے، جبکہ باقی سندھ اور خیبرپختونخوا کا ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے آم پر پنجاب میں بھی اثرات دیکھنے میں آئے ہیں۔ ’فلاورنگ کے وقت دھند رہی اور پھر یکدم سے مئی میں گرمی نے آم کے باغات کو نقصان پہنچایا ہے‘۔
’پنجاب میں ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے مگر سندھ میں ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بھی شاید کافی زیادہ کام کی ضرورت ہے، دوسرا وہاں پر آم کے باغات کے قریب انفراسٹرکچر کا بہتر ہونا نہایت اہم ہے۔ کیونکہ موسمیاتی تغیرات کو تو نہیں روکا جا سکتا البتہ خود چیزوں کو ضرور بہتر کیا جاسکتا ہے‘۔
واضح رہے کہ کچھ ہفتے قبل کلائمیٹ ایکشن سینٹر (سی اے سی) کے ایک سیشن میں چیف میٹرولوجسٹ نے کراچی سمیت سندھ میں رواں برس بھی 2022 میں آنے والے سیلاب کے پیمانے یا اس سے زیادہ پیمانے کی بارشوں کی پیش گوئی کی اور اس حوالے سے خبردار کیا ہے۔ ’رواں برس بھی اگر اسی پیمانے کا سیلاب سندھ میں آتا ہے تو وہاں موجود زمیندار ایک بار پھر سے اپنی محنت کو اپنی نظروں کے سامنے تباہ ہوتے دیکھیں گے‘۔
آم کی پیداوار میں کمی سے کیسے نمٹا جائے؟
صوبہ پنجاب کے باغوں میں ہر سال 5 لاکھ پودے آم کے شامل کیے جارہے ہیں تاکہ آم کی پیداوار میں کمی سے بچا جا سکے۔ ایک رقبے پر اگر 36 پودے ہیں تو اس کی جگہ 70 سے 75 پودے لگائے جارہے ہیں تاکہ کم رقبے پر زیادہ پھل لگایا جا سکے۔ ورنہ ظاہر ہے ملک میں آم کی پیداوار میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں قطر کے خاص فیسٹیول میں رسیلے پاکستانی آم کی دھوم
اسی طرح کی پالیسیاں سندھ میں بھی بنانے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ کسانوں کو آم کے درختوں کو لگنے والی بیماریوں کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جانی چاہیے تاکہ وہ بروقت اپنے آم کے باغات کو بچا سکیں۔