گزشتہ سال دنیا بھر میں ’جین اے آئی‘ پر مبنی ٹیکنالوجی کے جاری کردہ ملکیتی حقوق کی تعداد 25 فیصد اور اس ٹیکنالوجی سے متعلق شائع ہونے والے مضامین کی تعداد 45 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔
پائیدار ترقی کے اہداف
ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (ویپو) نے بتایا ہے کہ تخلیقی مصنوعی ذہانت (جین اے آئی) پر مبنی ایجادات کے ملکیتی حقوق کی درخواست دینے والوں میں چین کے موجدین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
’جین اے آئی‘ کی موجودہ صورتحال پر ’ویپو‘ کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق، اس معاملے میں چین نے امریکا، جمہوریہ کوریا، جاپان اور انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ علاوہ ازیں، 2014 سے 2023 کے درمیان دنیا بھر میں ’جین اے آئی‘ پر مبنی 54 ہزار ایجادات ہوئیں جن میں 25 فیصد سے زیادہ گزشتہ برس ریکارڈ کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں:ٹک ٹاک کے نئے ’اے آئی ٹول‘ سے قابلِ اعتراض مواد بنایا جا سکتا ہے؟
اس عرصہ میں چین سے ’جین اے آئی‘ کی 38 ہزار سے زیادہ ایجادات سامنے آئیں جو کہ امریکا اور انڈیا سے 6 گنا زیادہ تھیں۔ سب سے زیادہ ایجادات کے اعتبار سے امریکا دوسرے اور انڈیا پانچویں درجے پر ہے۔ اس عرصہ میں ان پانچوں بڑے ممالک میں اس ٹیکنالوجی پر مبنی ایجادات میں اضافے کی سالانہ شرح 56 فیصد رہی۔ اب ’جین اے آئی‘ کا دائرہ روز مرہ زندگی سے متعلق سائنس، صنعتوں، نقل و حمل، سلامتی اور ٹیلی مواصلات تک پھیل رہا ہے۔
ملکیتی حقوق کا تجزیہ
دورحاضر میں ’جین اے آئی‘ انقلابی ٹیکنالوجی کے طور پر سامنے آئی ہے جو لوگوں کے کام کرنے، رہن سہن اور کھیلنے کے طریقوں کو مثبت اور نمایاں طور سے تبدیل کر سکتی ہے۔ ‘ویپو’ کو امید ہے کہ ملکیتی حقوق سے متعلق رحجانات اور معلومات کا تجزیہ کرنے سے ہر ایک کو تیزی سے ترقی پاتی اس ٹیکنالوجی اور اس کی سمت کے بارے میں بہتر سمجھ بوجھ فراہم کی جا سکتی ہے۔
’ویپو‘ کے ڈائریکٹر جنرل ڈیرن ٹینگ کا کہنا ہے کہ اس تجزیے سے پالیسی سازوں کو سبھی کے عام فائدے کے لیے ’جین اے آئی‘ کی ترقی کو انسان دوست انداز سے متشکل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ رپورٹ موجدین، محققین اور ایسے دیگر لوگوں کے لیے ’جین اے آئی‘ سے بہتر طور پر کام لینے میں بھی معاون ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں:ایپل کی اوپن اے آئی سے شراکت داری پر ایلون مسک کی دلچسپ ٹویٹ
54 ہزار ایجادات
گزشتہ سال دنیا بھر میں ’جین اے آئی‘ پر مبنی ٹیکنالوجی کے جاری کردہ ملکیتی حقوق کی تعداد 25 فیصد اور اس ٹیکنالوجی سے متعلق شائع ہونے والے مضامین کی تعداد 45 فیصد تک بڑھ گئی۔ اس وقت ’جین اے آئی‘ سے متعلق جاری ہونے والے ملکیتی حقوق کی تعداد دنیا بھر میں تمام ایجادات کے جاری ہونے والے ملکیتی حقوق کا 6 فیصد ہے۔
2014 اور 2023 کے درمیان تخلیقی مصنوعی ذہانت سے متعلق 54 ہزار ایجادات کے ملکیتی حقوق کے لیے درخواستیں دی گئیں اور اس ٹیکنالوجی کے بارے میں 75 ہزار سائنسی مضامین شائع ہوئے۔ 2017 میں ‘لارج لینگوئج ماڈیولز’ کے پیچھے گہرے نیورل نیٹ ورک آرکیٹیکچر متعارف ہونے کے بعد ’جین اے آئی‘ ٹیکنالوجی کے ملکیتی حقوق کی تعداد میں 8 گنا اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا مائیکروسافٹ کا نیا اے آئی ماڈل صارفین کی سیکیورٹی کے لیے خطرناک ہے؟
’جین اے آئی‘ کے ملکیتی حقوق کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں دینے والوں میں ٹینسینٹ (2,074 ایجادات) ، پنگ ان انشورنس (1,564 ایجادات) ، بیڈو (1,234 ایجادات) ، چائنیز اکیڈمی آف سائنسز (607) ، آئی بی ایم (601) ، علی بابا گروپ (571) سام سنگ الیکٹرانکس (468) ، الفابیٹ (443)، بائٹ ڈانس (418) اور مائیکروسافٹ (377) شامل ہیں۔
طبی ٹیکنالوجی میں ترقی
اس ٹیکنالوجی پر مبنی سب سے زیادہ ایجادات چین (38,210)، امریکا (6,276)، جمہوریہ کوریا (4,155)، جاپان (3,409) اور انڈیا (1,350) میں ہوئیں۔
’جین اے آئی‘ کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے جن ایجادات کے ملکیتی حقوق جاری کیے گئے ان میں بیشتر (17,996) کا تعلق تصاویر اور ویڈیو سے تھا۔ اس کے بعد تحریری مواد پر مبنی ایجادات (13,494) کو ملکیتی حقوق جاری کیے گئے۔ گفتگو/موسیقی پر مبنی مواد کی 13,480 ایجادات رجسٹرڈ ہوئیں۔
مالیکیول، جین اور پروٹین سے متعلق معلومات پر مبنی ٹیکنالوجی کی ایجادات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2014 کے بعد ایسی 1,494 ایجادات کے لیے ملکیتی حقوق جاری کیے گئے، جبکہ گزشتہ 5 برس کے دوران ان میں اوسط سالانہ اضافے کی شرح 78 فیصد تک رہی۔
یہ بھی پڑھیں:مصنوعی ذہانت کے شعبہ میں ’اوپن اے آئی‘ مسلسل دوسرے سال بھی سرفہرست
جین اے آئی: مستقبل کے امکانات
یہ ملکیتی حقوق بہت سے شعبوں سے متعلق ٹیکنالوجی کے لیے جاری کیے گئے جن روزمرہ زندگی کی سائنس سے متعلق 5,346، دستاویزات کے انتظام و اشاعت سے متعلق 4,976 اور کاروباری طریقوں، صنعت اور اشیا کی تیاری، نقل و حمل، سلامتی اور ٹیلی مواصلات کے شعبوں میں سے ہر ایک میں 2,000 ایجادات کے لیے ملکیتی حقوق جاری کیے گئے۔
‘ویپو’ کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ’جین اے آئی‘ نئے مالیکیول کی تیاری اور ادویہ سازی کو وسعت دینے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے، جبکہ اس سے دستاویزات کے انتظام و اشاعت کو خودکار بنایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں نچلی سطح پر اشیا کی فروخت، پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام اور خودکار ڈرائیونگ سمیت صارفین کی خدمات کے لیے کام کرنے والے چیٹ بوٹس میں اس کا استعمال بڑھنے کا امکان ہے۔