سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن معطل کر دیے

جمعرات 4 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 الیکشن ٹربیونلزکی تشکیل کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی جس میں  سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا 26 اپریل کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن آئندہ سماعت سے قبل آپس میں مشاورت کریں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل عباسی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ وکیل الیکشن کمیشن نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو لکھا 27 جون کا خط دکھایا۔ الیکشن کمیشن اف پاکستان نے چاروں ہائیکورٹس کو پہلے ٹربیونل تعیناتی کے لیے بھی خطوط لکھے۔

ریکارڈ کے مطابق پہلے 2 ٹربیونلز لاہور ہائیکورٹ کے ساتھ مل کر بنائے گئے تھے جو ناکافی تھے۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ اس کے بعد 6 مزید ججز کے نام بطور ٹربیونل لاہور ہائی کورٹ نے بھیجے، الیکشن کمیشن نے 6 میں سے 2 ججز کو ہی ٹریبیونل تعینات کیا۔

سپریم کورٹ نے معاملہ چیف جسٹس ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کی مشاورت پر چھوڑتے ہوئے کہا کہ درخواست سپریم کورٹ میں زیر التوا رہے گی۔

عدالت نے حکمنامے میں کہا کہ الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے درمیان بالمشافہ ملاقات ہوتی تو معاملہ شاید حل ہو جاتا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا لاہور ہائیکورٹ سے پینل مانگنے کا خط بھی معطل کردیا۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی تعییناتی کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملاقات ممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

یاد رہے کہ 20  جون کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ کمیٹی کو بھجوایا تھا۔

الیکشن کمیشن کا مؤقف  ہے کہ اسے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا اختیار حاصل ہے اور لاہور ہائیکورٹ کا ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ قانون کے خلاف ہے کیوں کہ ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتی۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس کی بینچ میں موجودگی پر پی ٹی آئی وکیل کا اعتراض

سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کے وکیل نیاز اللہ نیازی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہم اپنا اعتراض ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، کیس کو کسی اور بینچ میں بھیجا جائے۔

اس پر چیف جسٹس نے نیاز اللہ نیازی سے کہا کہ آپ کو سن لیا ہے تشریف رکھیں۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ بینچ میں نے تشکیل نہیں دیا،کمیٹی نے بینچ تشکیل دیا ہے۔

نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ میرے کلائنٹ کا اعتراض ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ میں نہ بیٹھیں۔

اس پر چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا سے کہا کہ ہم نے آپ سے پہلی سماعت پر پوچھ لیا تھا کہ کوئی اعتراض ہے؟ آپ نے جواب دیا تھا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں، کیوں نہ نیاز اللہ نیازی کا کیس پاکستان بار کونسل کو بھجوا دیں۔

’کیا ہم یہاں بے عزتی کرانے بیٹھے ہیں‘

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم اپنی بے عزتی کے لیے یہاں بیٹھے ہیں، بہت ہوگیا معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھیجیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے روز اعتراض اٹھانے والے کو فریق بنتے وقت کسی پر اعتراض نہیں تھا، ہم ایسے رویے پر کارروائی کا کہیں گے، پہلے روز 2 رکنی بینچ میں میں شامل تھا تب اعتراض نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیے: پی ٹی آئی کا ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل الیکشن ٹریبونلز میں مقدمات کی پیروی نہ کرنے کا اعلان

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اعتراض تھا تو پہلے ہی دن اٹھانا چاہیے تھا، آج آکر زبانی بینچ پر اعتراض کردیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بینچ پر اعتراض اٹھاکر ہیڈ لائنز بنوانا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس اور بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھانے پر عدالت برہم ہوگئی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمیں کمیٹی نے بینچ میں ڈالا ہے، کیا یہاں بے عزتی کرانے بیٹھے ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ ہم 3 ارکان بینچ میں بعد میں شامل ہوئے بظاہر اعتراض مجھ پر ہے۔

جو جیل میں ہے اسے بھی (آپ پر) اعتراض ہے، نیاز اللہ نیازی

نیاز اللہ نیازینے کہا کہ پہلی سماعت میں ہم فریق نہیں تھے، جو شخص جیل میں ہے اس کا بھی اعتراض ہے، میں اپنے مؤکل کے کہنے پر اعتراض کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس  نے کہا کہ جس شخص کا ذکر کر رہے ہیں وہ جیل سے ویڈیو لنک پر پیش ہوچکا ہے، جیل سے پیش ہونے والے نے بینچ پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔

اس پر نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ عدالت کے سامنے ساری باتیں نہیں کرنا چاہتا۔

جب ایک شخص بینچ بناتا تھا وہ ٹھیک تھا، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ جب ایک شخص بینچ بناتا تھا تب ٹھیک تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے نیاز اللہ نیازی کی سیاسی وابستگیاں ہیں، ان کی سیاسی وابستگیوں کا بھی احترام ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو اسیکنڈلائز کرنے والے وکیل کا لائنسنس معطل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا جو منہ میں آئے کہہ دیں بس آپ لوگ کیس خراب کرنا چاہتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ نیاز اللہ نیازی جن کے وکیل ہیں انہوں نے فریق بننے کی استدعا کی ہوئی ہے، عدالت نے گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل کوبھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کیا تھا جو عدالت نے منظور کر لی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ریٹائرڈ ججز کی الیکشن ٹریبونل میں تقرری کا معاملہ، سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی

سکندر بشیر نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ حکم نامے میں دیگر صوبوں میں ٹربیونلز کی تشکیل کا ریکارڈ مانگا تھا۔

جسٹس عقیل عباسی  نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا 15 فروری کا خط جمع کرائیں وہ بہت ضروری ہے، آپ نے پینل مانگا تھا اس کا کیا مطلب ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ججز کی فہرست درکار تھی تو ویب سائٹ سے لے لیتے۔ کیا چیف جسٹس الیکشن کمیشن کی پسند نا پسند کا پابند ہے، کیا چیف جسٹس کو الیکشن کمیشن ہدایات دے سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ججز میں سے خود انتخاب نہیں کر سکتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ چیف جسٹس کو ہی علم ہوتا ہے کون کون سے جج دستیاب ہیں، ہو سکتاہے کچھ جج بیرون ملک ہوں کچھ ذاتی وجوہات پر ٹریبونل میں نہ آنا چاہتے ہوں، الیکشن کمیشن کو کسی جج پر اعتراض تھا تو وجہ بتا سکتا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وجہ بتائی جا سکتی تھی کہ فلاں جج کا بھائی الیکشن لڑ چکا اس لیے یہ ٹریبونل میں نہ ہوں۔

 وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تمام ججز اچھے ہیں سب کا احترام کرتے ہیں۔

سکندر بشیر نے کہا کہ مجموعی طور پر پنجاب میں 176 الیکشن پٹیشنز دائر ہوئی ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر میں چیف جسٹس ہائیکورٹ ہوتا تو وہی کرتا جو لاہور ہائیکورٹ نے کیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پینل نہیں مانگ سکتا، کیا اسلام آباد اور دیگر صوبوں میں بھی پینل مانگے گئے تھے؟ جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن چیف جسٹس سے ملاقات کرکے مسئلہ حل کر سکتا تھا، الیکشن کمیشن اب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے مشاورت کیوں نہیں کر لیتا؟ بتائیں ابھی مشاورت میں کیا رکاوٹ ہے؟

اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ہم نے ایک خط لکھا ہے ملاقات کے لیے رجسٹرار ہائیکورٹ کو، ابھی جواب نہیں آیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر بیٹھ کر مسئلہ حل کر سکتے ہیں، اس معاملے پر وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟

جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگر ترمیم منظور ہوجائے تو بھی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت لازمی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا الیکشن کمیشن چیف جسٹس ہائیکورٹ سے ملاقات پر تیار ہیں یا نہیں؟

مزید پڑھیں: http://اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن ٹریبونل کی تبدیلی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

جسٹس جمال مدوخیل نے کہا کہ چیف جسٹس کو کہا جاتا کہ کن علاقوں کے لیے ججز درکار ہیں وہ فراہم کر دیتے، ملتان کے لیے جج درکار ہے وہ اس رجسٹری میں پہلے ہی جج موجود ہوگا، کیا لازمی ہے کہ ملتان کے لیے لاہور سے جج جائے جبکہ وہاں پہلے ہی جج موجود ہے؟ پہلے اچھے طالبان اور برے طالبان کی بات ہوتی تھی اب کیا ججز بھی اچھے برے ہوں گے؟

سپریم کورٹ نے ٹربیونلز کی تشکیل کا معاملہ دوبارہ الیکشن کمیشن اور لاہور ہائیکورٹ کی مشاورت پر چھوڑنے کا عندیہ دیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے ٹریبونلز سے متعلق آرڈر پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرڈر معطل ہونے یا نہ ہونے سے دونوں اداروں کی مشاورت پر فرق پڑے گا یا نہیں، ہم آپس میں مشورہ کر کے آتے ہیں۔

بعد ازاں سماعت میں مختصر وقفہ کیا گیا جس کے بعد سماعت کا آغاز  ہوا۔

 سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن معطل کر دیے۔

سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن آئندہ سماعت سے قبل آپس میں مشاورت کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp