بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کے جانے سے حالات بدل گئے ہیں لیکن دیکھا جائے تو صرف وزیراعظم ہاؤس میں کچھ بدلاؤ آیا ہے۔ پہلے وہاں ایک ماڈل ٹائپ وزیراعظم تھا جس کی روز نئی تصاویر دیکھنے کو ملتی تھیں کبھی اس کے جُوتے دکھائے جاتے تھے، کبھی شلوار قمیض دکھائی جاتی تھی تو کبھی اس کا ٹراؤزر دکھایا جاتا اور ساتھ لکھا ہوتا تھا کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہینڈسم وزیراعظم ہے پورے چار سال عوام کو نئے نئے فلٹر لگا کر صرف تصاویر ہی دکھائی گئی ہیں اس کے علاوہ کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ کبھی نہیں دیکھا کہ ہینڈسم وزیراعظم نے کوئی نیا ہسپتال بنایا ہو، نئی یونیورسٹی بنائی ہو یا غریب عوام کو کوئی ریلیف دیا ہو۔ ہاں شروع میں کچھ دن الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیل پر ڈیم خوب بنائے گئے تھے جس سے پاکستان کو سستی ترین بجلی ملنی تھی ان ڈیمز کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں نوکریاں آنی تھیں۔ ان ڈیمز کے بننے سے ارض وطن سے سیلاب جیسی آفتوں کا خاتمہ ہو جانا تھا۔
اور اب جو صاحب وزیراعظم ہاؤس میں براجمان ہیں ان کی کئی کئی دنوں تک کوئی خبر نہیں آتی تصویر تو بہت دور کی بات ہے کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے اس مُلک میں وزیراعظم ہی کوئی نہیں ہے۔ ہاں وزیر مشیر ہیں جو میڈیا پر اپنی حکومت کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ خیر واپس اپنے اصل مدعے کی طرف آتے ہیں
بدلا تو کچھ بھی نہیں ہے
پہلے ایک باجوہ ڈاکٹرائن آئی تھی جس نے عدلیہ سمیت تمام اداروں الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کو اپنی گود میں لے لیا تھا اور ایک ڈاکٹرائن نے پورے مُلک کو اپنی مرضی اور اپنے طریقے سے چلایا یہاں تک کے جو ایک دو جج اس ڈاکٹرائن کے واٹس ایپ گروپ میں نہیں آئے ان کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور جو صحافی اس ڈاکٹرائن کی چھتری کے نیچے نہیں آیا اس کو میڈیا سے فارغ کر دیا گیا اور جو سوشل میڈیا پر اپنی مرضی کرتا تھا اس کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ سسپینڈ ہو جاتا تھا۔ اگر وہ پھر آتا تھا تو کسی نا کسی جھوٹے کیس میں دھر لیا جاتا تھا اور جو ڈاکٹرائن کے عین مطابق چلتا تھا اس کو دن دُگنی رات چُگنی ترقی سے نوازا گیا۔
کچھ ایسے محترم ججز بھی تھے جن کی ہائیکورٹس میں جگہ مشکل تھی ان کو ڈاکٹرائن نے سپریم کورٹ تک پہنچا دیا۔ اسی طرح بہت سے نام نہاد صحافی جو سو 100 روپے کے لیے لوگوں کو بلیک میل کیا کرتے تھے ان کو گلی محلوں سے اٹھا کر ارب پتی بنا دیا گیا۔ کچھ تو ہوٹلوں میں برتن مانجھا کرتے تھے وہ پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ پر سینئر تجزیہ کار بنا دیئے گئے کیونکہ وہ ڈاکٹرائن کے عین مطابق چل رہے تھے اور ایک مخصوص پارٹی اور اس کی لیڈرشپ کو خوب گالیاں دیا کرتے تھے۔ ایک مخصوص ٹولے کی ہمہ وقت تعریفوں کے پُل باندھا کرتے تھے اور عوام کو بتایا کرتے تھے کہ پاکستان کا یہ واحد شخص ہے جس کو سپریم کورٹ نے صادق اور امین قرار دیا ہے باقی تو سب چور ڈاکو مُلک دشمن ہیں۔
بدلا تو کچھ بھی نہیں ہے
آج بھی سب ویسے کا ویسے ہی ہے۔ آج بھی پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی عدالتیں ایک مخصوص پارٹی کو منٹوں اور سیکنڈوں میں تحفظ فراہم کر رہی ہیں۔ ادھر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرتے پکڑا جاتا ہے یا کسی کی ضمانت منسوخ ہوتی ہے اُدھر دوسرے لمحے درخواست دائر ہوتی ہے، عدالت لگتی ہے اور ریلیف مل جاتا ہے۔ حالانکہ یہی محترم عدالتیں تھیں، یہی محترم ججز تھے، لوگ اپنے کیسز کے سلسلے میں سارا سارا دن ہتھکڑیوں میں جکڑے بیٹھے رہتے تھے اور شام کو پتہ چلتا تھا بنچ ٹوٹ گیا ہے یا محترم جج چھٹی پر چلے گئے ہیں اور لوگ کئی کئی ماہ تک جیلوں میں پڑے رہتے تھے۔ ان کا کیس سننے والا کوئی جج نہیں ہوتا تھا۔
بدلا تو کچھ بھی نہیں ہے
الیکٹرانک میڈیا 2014 سے ایک مخصوص سیاسی جماعت کا مسلسل میڈیا ٹرائل کر رہا ہے اور مخصوص جماعت کی مسلسل ترجمانی کر رہا ہے۔ 2014 سے پہلے میڈیا شوز میں تین چار بڑی سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو لیا جاتا تھا اور ان سب کو اپنی اپنی بات کرنے کا موقع دیا جاتا تھا لیکن 2014 سے میڈیا یکسر بدل گیا ہے۔ اگر کسی شو میں چار تجزیہ کار بیٹھے ہیں تو تین صرف اس لیے بٹھائے جاتے ہیں کہ وہ ایک مخصوص سیاسی جماعت اور اس کی لیڈرشپ کو خوب گالیاں دیتے ہیں اور کوئی بھی میڈیا گروپ دیکھ لو ہر جگہ یہی کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔
پہلے تو سب سامنے تھا کہ باجوہ ڈاکٹرائن نے میڈیا کنٹرول کیا ہے اور اس وجہ سے میڈیا ایک سیاسی جماعت کا دشمن بن گیا ہے لیکن اب پتہ نہیں کون میڈیا کنٹرول کر رہا ہے اور ایک مخصوص گروہ سے دوستی نبھا رہا ہے۔ کہنے کو باجوہ ڈاکٹرائن ختم ہوگئی ہے لیکن وہ اپنے خمیر سے اتنے بچے پیدا کر گئی ہے کہ قدم قدم پر باجوہ ڈاکٹرائن موجود ہے۔ جو آج بھی اپنا کام اسی طریقے اور اسی انداز سے کر رہی ہے جو سیم پیج کے دور میں ہوتا تھا۔ آج بھی سب ویسا ہی ہے جو پہلے ہوتا تھا۔
بدلا تو کچھ بھی نہیں ہے