دنیا میں ہر سال جنگلی حیات کی 4 ہزار قیمتی انواع کی غیر قانونی تجارت ہو رہی ہیں جس سے فطرت، روزگار اور صحت عامہ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی جاری کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق ہاتھیوں اور گینڈوں سمیت بعض جانوروں کو تحفظ دینے کی مؤثر کوششوں کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں تاہم اس حوالے سے دنیا بھر کی مجموعی صورتحال اب بھی پریشان کن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سمیت دنیا بھر میں جنگلی حیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے
ہر سال ہزاروں ایسے جاندار اور پودے مختلف مقاصد کے لیے اسمگل کیے جا رہے ہیں جن کی انواع کو معدومیت کا سنگین خطرہ لاحق ہے۔
ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر غادہ والے نے کہا ہے کہ جنگلی حیات سے متعلق جرائم کے باعث موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے زمین کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
معدومیت کا بھولا ہوا سبب
یو این او ڈی سی نے بتایا ہے کہ سنہ 2015 اور سنہ 2021 کے درمیان 162 ممالک میں جانوروں اور پودوں کی غیرقانونی تجارت سے ان کی تقریباً 4 ہزار انواع کو نقصان پہنچا جن میں سے 3 ہزار 250 ایسی ہیں جن کا معدومیت کے خطرے سے دوچار جنگلی جانوروں اور پودوں کی تجارت کے خلاف بین الاقوامی کنونشن (سی آئی ٹی ای ایس) میں بھی تذکرہ ہے۔
مزید پڑھیے: محکمہ جنگلی حیات کا گلیات میں چھاپہ، نایاب جانوروں کی کھالیں، مصنوعات برآمد
اس عرصے میں ان انواع سے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ 30 لاکھ جانور اور پودے قبضے میں لیے گئے جن کا مجموعی وزن 16 ہزار ٹن تھا۔
آرکیڈ اور رس بھرے پودوں، رینگنے والے جانوروں، مچھلیوں، پرندوں اور ممالیہ کی متعدد نایاب اقسام کی معدومیت میں ان کی اسمگلنگ کا اہم کردار ہے۔ تاہم جانداروں کی معدومیت کے اسباب کا تجزیہ کرتے وقت عموماً اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
دنیا کے جنوبی حصوں میں رس بھرے پودوں کی متعدد اقسام اس لیے معدوم ہو رہی ہیں کہ انہیں تجارتی مقاصد کے لیے غیرقانونی طور پر جمع کیا جاتا ہے۔ ایسی ہی سرگرمیوں کے باعث آرکیڈ کی نایاب اقسام بھی ختم ہونے کو ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر اور گاہک ان کی نئی انواع کو بھی فوری طور پر نشانہ بناتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ پھیلنے سے پہلے ہی غائب ہو جاتی ہیں۔
طاقت ور دشمن
سال2015 سے سال 2021 کے درمیان پکڑی جانے والی جنگلی حیات کی ایک لاکھ 40 ہزار انواع کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی اسمگلنگ میں منظم جرائم سے وابستہ طاقت ور گروہ ملوث تھے جو ایمیزون سے گولڈن ٹرائی اینگل (شمال مشرقی میانمار، شمال مغربی تھائی لینڈ اور شمالی لاؤ) تک دنیا بھر میں ماحولیاتی نظام کا استحصال کر رہے ہیں۔
جنگلی حیات کی برآمد، درآمد، دلالی، انہیں ذخیرہ کرنے، ان کی نسل کشی اور فروخت سمیت ان کی تجارت کے کئی مراحل میں ان گروہوں کا نمایاں کردار ہے۔
یو این او ڈی سی کے مطابق جنگلی حیات کے اسمگلر پکڑے جانے اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے اپنے طور طریقے اور راستے متواتر تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ قانون اور نفاذ قانون میں خامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
پودوں اور جانوروں کے استحصال میں بدعنوانی کا بھی اہم کردار ہے کیونکہ حکام اکثر ایسے جرائم سے صرف نظر کرتے ہیں۔ جنگلی حیات کی اسمگلنگ جیسے جرائم پر کم ہی قانونی کارروائی ہوتی ہے جس کے باعث ان کا ارتکاب کرنے والے سزا سے بچ نکلتے ہیں۔
ماحولیاتی نظام میں خلل اور صحت کے لیے خطرات
یو این او ڈی سی کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات سے متعلق جرائم کے دنیا بھر میں گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کے نتائج کو عموماً درست طور سے سمجھا نہیں جاتا۔
ان کی اسمگلنگ سے نایاب انواع کو نہ صرف براہ راست خطرات لاحق ہیں بلکہ اس سے ماحولیاتی نظام اور اس کے افعال میں بھی خلل آ رہا ہے۔ اس طرح موسمیاتی تبدیلی کو محدود رکھنے کے لیے اس کی صلاحیت کمزور پڑنے لگی ہے۔
مزید پڑھیے: جنگلی حیات کو تحفظ دینا ہی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے
مزید برآں انسانی و حیوانی صحت کے ماہرین حالیہ دہائیوں میں جنگلی حیات کی تجارت کے نتیجے میں بیماریاں پھیلنے کے خطرات سے متواتر خبردار کرتے آئے ہیں۔ ان میں جانورں، پودوں اور جنگلی جانوروں کے گوشت سے انسانوں کو امراض کی براہ راست منتقلی اور جنگلی حیات کی آبادی، ماحولیات اور خوراک کی تیاری کے نظام کو لاحق وسیع تر خطرات شامل ہیں۔
امید کی کرن
غادہ والے کا کہنا ہے کہ اس جرم پر قابو پانے کے لیے ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن کے ذریعے جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت کرنے والوں کو نت نئے طریقے اختیار کرنے سے روکا جا سکے۔ اس کے لیے جنگلی حیات کی طلب و ترسیل کے حوالے سے ایسے مضبوط و مخصوص اقدامات کرنے ہوں گے جن سے مجرمانہ ترغیبات اور منافع کا خاتمہ ہو سکے۔
اس کے علاوہ معلومات کے حصول، ان کے تجزیے اور نگرانی کی صلاحیتیں بہتر بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی درکار ہے۔
ہاتھیوں اور گینڈوں کے جسمانی اعضا کی اسمگلنگ کے حالیہ تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی طلب و رسد کو روکنے کی جامع حکمت عملی اختیار کرنے کے نتیجے میں حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ تاہم اس طریقہ کار کے ساتھ پالیسی، مارکیٹ کے کڑے ضوابط اور بڑے اسمگلروں کے خلاف قانونی کارروائی کی بھی ضرورت ہے۔
یو این او ڈی سی نے بتایا ہے کہ گزشتہ دہائی میں ان دونوں جانوروں کے غیرقانونی شکار اور ان کے جسمانی اعضا کی قیمت فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے۔