یہ اوائل جولائی کے دن تھے جب مری روڈ، راولپنڈی پر واقع بجلی کے سامان کی ایک دکان کے باہر سرکاری جیپ آکر رکی۔ گاڑی سے اُترنے والا فیڈرل سیکیورٹی فورس(ایف ایس ایف) کا ایک افسر تھا جس نے دکاندار کو سامان کی لمبی چوڑی فہرست تھمائی۔ کچھ عرصہ قبل ہی شروع کی گئی اس دکان کے لیے یہ آرڈر استطاعت سے باہر تھا، اس لیے دکاندار نے انکار کر دیا۔ جس پر افسر نے بولا، ہمارے دفتر کے نزدیک ترین دکان آپ ہی کی ہے اس لیے سامان منگوائیں، ہم کچھ رقم ایڈوانس دے دیں گے۔
اس دکان کے مالک یونس خواجہ لگ بھگ پانچ دہائیوں پہلے کی یادداشت کو کھنگالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میں نے بادل نخواستہ ہامی بھرتے ہوئے انہیں بجلی کی تاروں کے سیمپل دکھائے جسے انہوں نے منظور کرلیا۔ ڈی ایس پی رینک کے افسر نے 5 ہزار روپے ایڈوانس دیے اور ایک دن کے اندر سامان منگوانے کو کہا‘۔
یونس خواجہ کے بقول انہوں نے اگلے روز اِدھر اُدھر سے کچھ ادھار پکڑا اور لیاقت مارکیٹ، راولپنڈی میں ایک ہول سیل ڈیلر کے پاس پہنچے۔ جہاں کچھ رقم موقع پر اور باقی بعد میں ادا کرنے کی یقین دہانی کرا کے گاڑی بھر کر سامان خرید لائے۔ کچھ دیر بعد ایف ایس ایف کے اُسی افسر نے آکر ان کی دکان سے سامان وصول کیا اور باقی رقم کے لیے رات کو اپنے دفتر آنے کو کہا۔
خواجہ محمد یونس کے مطابق سامان کا بل غالباً 20 سے 28 ہزار روپے کے بیچ بنا تھا، جو اُس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ بھٹو دور میں ایف ایس ایف کی خاصی دہشت تھی، یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے بقیہ پیسے بعد میں وصول کرنے کا کہا تو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں وہ انکار ہی نہ کردیں۔ رات کو انہوں نے دکان بند کی اور سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں فیڈرل سیکیورٹی فورس کے مرکز جا پہنچے۔ وہاں موجود لوگوں سے متعلقہ افسر کا پتا پوچھ کر وہ ان کے دفتر پہنچے تو انہوں نے چائے پلا کر رقم ان کے حوالے کردی۔ انہوں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ زندگی میں جو پہلا رسک لیا تھا انہیں اس میں نقصان نہیں ہوا۔
گھر جاکر وہ سکون کی نیند سوگئے اور صبح فجر کے وقت بیدار ہوکر مسجد کا رخ کیا۔ نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد جب وہ مسجد سے باہر آئے تو اخباری ہاکر آواز لگا رہا تھا۔۔۔
’ملک میں مارشل لا لگ چکا ہے اور فوج نے تمام اہم اداروں پر قبضہ کرلیا ہے جبکہ فیڈرل سیکیورٹی فورس کے تمام دفاتر سیل کردیے گئے ہیں۔ ان کے بقول اگر یہی مارشل لا ایک روز پہلے لگ جاتا تو شاید ان کی رقم کبھی دوبارہ نہ ملتی اور کاروبار بھی ڈوب جاتا۔
یہ تو ایک عام شہری کی داستان تھی، اب ذرا تاریخ کےاِس گمشدہ باب ‘فیڈرل سیکورٹی فورس’ پر بھی گفتگو کر لیتے ہیں۔
بھٹو کو جوابدہ فیڈرل سیکورٹی فورس:
سینئر صحافی اور محقق سید صفدر گردیزی بتاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد لاہور میں پولیس اہلکاروں نے ہڑتال کر دی اور بعد میں صوبہ سرحد(موجودہ خیبر پختونخواہ) میں بھی پولیس والے ہڑتال پر چلے گئے۔ اس وقت کے گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر نے پیپلزپارٹی کے ورکرز سے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کا کام لیا۔ اسی طرح 1972 میں کراچی میں اردو، سندھی تنازعے پر ہونے والے مظاہروں سے بھی فوج کو نمٹنا پڑا۔ جن کی تربیت ان مقاصد کے لیے نہیں ہوئی تھی۔ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت نے محسوس کیا کہ وفاقی حکومت کے ماتحت بھی کوئی سویلین سیکورٹی فورس ہونی چاہیے۔
مئی 1973 میں وفاقی حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے فیڈرل سیکورٹی فورس(ایف ایس ایف) قائم کرنے کا اعلان کیا، جو براہ راست صدر مملکت ذولفقار علی بھٹو کو جوابدہ تھی۔ بعد میں جب بھٹو وزیراعظم بنے تو یہی فورس انہیں بطور وزیراعظم جوابدہ ہو گئی۔ ریٹائرڈ پولیس آفیسر حق نواز ٹوانہ کو 50 لاکھ بجٹ کے ساتھ اس ادارے کا پہلا ڈائریکٹر جنرل بنایا گیا۔ تاہم کچھ ہی عرصے بعد بھٹو نےان کی جگہ مسعود محمود کو ڈی جی مقرر کر دیا۔
ایف ایس ایف کے قیام کے مقاصد:
اس ادارے کے مینڈیٹ میں لاء اینڈ آرڈر اور سیکورٹی صورتحال کو قابو کرنا، صوبوں کے درمیان اسمگلنگ اور دیگر جرائم کو روکنا شامل تھا۔ مگر صفدر گردیزی کہتے ہیں کہ مینڈیٹ کے برعکس اس ادارے سے مختلف کام لیا گیا۔ بھٹو حکومت کے مخالفین کو دبانے کے لیے اپوزیشن کے جلسے اور سیاسی سرگرمیاں ٹارگٹ کی گئیں۔ چوتھی آئینی ترمیم کے موقع پر ایف ایس ایف کے ڈی جی مسعود محمود سویلین لباس میں ملبوس اہلکاروں کے ساتھ قومی اسمبلی ہال میں داخل ہو گئے۔ جہاں انہوں نے اہم اپوزیشن رہنماؤں مفتی محمود، میاں محمود علی قصوری، چوہدری ظہور الہیٰ، پروفیسر غفور احمداور مولانا شاہ احمد نورانی کو اسمبلی سے زبردستی باہر نکال دیا۔
صفدر گردیزی کے بقول ایف ایس ایف کی چیرہ دستیوں سے بھٹوحکومت کے مخالفین ہی نہیں بلکہ ان کی پارٹی کے لوگ بھی محفوظ نہیں رہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کا حصہ رہنے والے جن ارکان سے ذولفقار علی بھٹو نالاں ہوتے، یہی فورس ان کی سرکوبی کرتی۔ پی پی کے بانی رکن جے رحیم جنہوں نے پارٹی کا منشور لکھا تھا ان سمیت کئی رہنماؤں کو ایف ایس ایف نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ مورخین کے مطابق اس ادارے کی بڑھتی طاقت سے دیگر سیکورٹی ادارے بھی ناخوش تھے۔
پانچ جولائی کا مارشل لاء:
جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگانے کا اعلان کیا تو اس کے فوری بعد ایف ایس ایف کے ڈی جی مسعود محمود، انٹیلی جنس ہیڈ میاں عباس سمیت کئی سرکردہ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ 5 جولائی کی صبح جب ایف ایس ایف کےڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایم ایم حسن کی ضیاء الحق سے ملاقات ہوئی تو اسی ملاقات میں انہیں فیڈرل سیکورٹی فورس کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔
اخبارات نے جنرل کلو کے کمیشن کو ایف ایس ایف بند کرنے پر مجبور کیا!
مارشل لاء حکام نے ایف ایس ایف کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے میجر جنرل شمس الرحمن کلو کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا۔ جس نے 1977 کے اواخر تک اس ادارے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ضیاءالحق سے ایک ہی ملاقات میں ادارے کے سربراہ بن بیٹھنے والے ایم ایم حسن نے اپنی کتاب ‘انسپکٹر جنرل ڈائری’ میں لکھا ہے انہوں نے اس ادارے کو بچانے کی خاصی کوشش کی۔ جنرل کلو کے کمیشن میں بھی بعض لوگوں کی رائے تھی کہ اس ادارے کو بند نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ 15 ہزار افرادی قوت والے اس ادارے میں ملازمین کی تعداد گھٹا کر 7 ہزار کر دی جائے جبکہ رینکس اور یونیفارم وغیرہ میں بھی تبدیلی کی جائے۔ تاہم اخبارات میں اس ادارے سے متعلق ایسی ہوش ربا داستانیں شائع ہوئیں، کہ کمیشن بھی اسے بند کر نے کے فیصلے پر مجبور ہو گیا۔
مسعود محمود جو اپنا تخلص ضمن کرتے تھے:
فیڈرل سیکورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود کی شخصیت دلچسپ مگر تضادات کا مجموعہ تھی۔ وہ دوسری عالمی جنگ میں برطانوی ائیرفورس کا حصہ تھے تاہم ایک حادثے کے نتیجے میں انہیں یہ نوکری چھوڑنا پڑی۔ سید صفدر گردیزی کے مطابق قیام پاکستان کے بعد انہیں پولیس میں اے ایس پی بنایا گیا۔ ایک طرف نثر لکھنے اور شاعری سے گہرا تعلق تھا، جس میں وہ اپنا تخلص ‘ضمن’ کرتے۔ دوسری جانب اپنی طاقت سے باقی لوگوں کو مرعوب رکھنے اور اپنی دہشست پھیلانے کے قائل تھے۔ وزارت دفاع میں مسعود محمود کے ماتحت کام کرنے والے افسر ایم ایم حسن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بطور ایڈیشنل سیکرٹری مسعود محمود نے اپنے دفتر میں صرف ایک کرسی رکھوائی تھی۔ تاکہ جو کوئی بھی ان کے دفتر میں آئے اسے ساری بات کھڑے رہ کر کرنی پڑے۔ اگر ان کے ماتحتوں میں سے کوئی شکایت کرتا یا اس عمل پر ناراضگی کا اظہار کرتا تو اسے او ایس ڈی بنا دیا جاتا۔
میاں محمد احمد خان قصوری کی طرح مسعود محمود کا تعلق بھی قصور ہی سے تھا۔ ایک زمانے میں بھٹو کی آنکھ کا تارا رہنے والے مسعود محمود بعد میں ضیاء الحق کے طرف دار ہوگئے۔ جہاں انہی کی گواہی پر سابق وزیراعظم کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ اگرچہ اس کیس میں پانچ افراد وعدہ معاف گواہ بنے تھے تاہم معافی کے معاملے میں خوش قسمت صرف مسعود محمود ہی ثابت ہوئے۔ جنہوں نے رہائی کے بعد کی بقیہ زندگی بیرون ملک گزاری اور ستمبر 1996 میں ان کا انتقال ہوا۔