قیدی جو جیل میں لاکھوں کما رہا ہے

بدھ 29 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ ایک حقیقت ہے کہ جیل کا نام سنتے ہیں ذہن کے کینوس پر جو نقش ابھرتے ہیں ان میں گرہ کٹ سے لیکر گلے کاٹنے والوں تک مجرموں کی خوفناک شبیہ شامل ہوتی ہے۔ جیل جسے جُڑا ہر خیال اپنے ساتھ منفی تاثرات رکھتا ہے، مگر سینٹرل جیل کراچی میں اسیر ’اعجاز‘ نامی مصور نے اس تصور کو تقریباً ختم کردیا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر خود کو منوانے والے اس ’مصور قیدی‘ سے ملاقات کا ارادہ کیا تو ناچار سینٹرل جیل کا رُخ کرنا پڑا کہ فی الحال اسی جیل کے ایک گوشے میں وہ نگار خانہ واقع جہاں اعجاز اپنے جیسے دوسرے مصور قیدیوں کے ساتھ رنگوں کی دنیا سجائے ہوئے ہے۔

سینٹرل جیل کراچی ایک الگ دنیا

سینٹرل جیل کراچی میں داخل ہوتے ہی انسان جیسے ایک الگ دنیا میں داخل ہوجاتا ہے، مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی کم و بیش ایک درجن پولیس اہلکار آپ کا استقبال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

تعارف کے بعد ایک ہاتھ کی پشت پر ایک مخصوص قسم کی مہر لگائی جاتی ہے جو قیدی اور غیر قیدی میں تفریق کرنے کے علاوہ مہمان کے جیل سے باہر جانے کے لیے وثیقہ راہداری کا کام بھی دیتی ہے۔ اس مہر کے بنا جیل کے حدود سے باہر نکلنا ناممکن تو نہیں البتہ دشوار ضرور ہوجاتا ہے، اس لیے جیل کسی بھی کام سے جانا ہو ہاتھ پر مہر لگوانا ضروری ہوتا ہے۔

’ممنوع علاقہ‘

مہر لگنے کے بعد اگلا مرحلہ جامہ تلاشی کا آتا ہے، اس مرحلے میں غیر ضروری اشیا وہیں دھر والی جاتی ہیں، جو واپسی کے سفر میں لوٹا دی جاتی ہیں۔ یوں درجنوں پولیس اہلکاروں کے سامنے آپ کی کچھ اس طرح اسکیننگ ہوتی ہے کہ خود کو بھی اس کا علم نہیں ہوتا۔

یہ سارا عمل ہونے کے بعد ایک پولیس اہلکار گائیڈ کے طور پر آپ کے ساتھ ہوتا ہے تا کہ آپ جان بوجھ کر یا غلطی سے کسی ایسی جگہ نہ نکل جائیں جو ’ممنوع علاقہ‘ کے زمرے میں آتا ہو ۔

صحافی اور قیدی میں فرق

جیسے ہی آپ ایک چھوٹے سے دروازے سے نکلتے ہیں ایک نئی دنیا آپ کی منتظر ہوتی ہے۔ صحافی اور قیدی کے اندر داخل ہونے میں بہت فرق ہے۔ صحافی بہت عزت سے اندر داخل ہوتا ہے اور قیدی کو تو بعض دفعہ استقبال میں دو تین تھپڑ بھی رسید کردیے جاتے ہیں، شاید اس لیے کہ اسے یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ یہ جیل ہے۔

فائن آرٹس اسکول

جیل کا جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھے تو دائیں جانب مسجد تھی، جو رمضان المبارک کی مناسبت سے نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ مسجد کے سامنے ’الخدمت‘ کا کمپیوٹر ٹریننگ اور انگلش لینگویج سینٹر واقع ہے۔

تھوڑا آگے بڑھیں تو ’فائن آرٹس اسکول‘ آتا ہے۔ اور یہی ہماری منزل تھا۔ غالباً احترام رمضان میں فی الوقت موسیقی کی کلاس نہیں ہو رہی تھی، تاہم پینٹنگ سیکشن میں اعجاز نام قیدی اپنے کام میں مشغول تھے۔

تقریباً 16 بائی 16 فٹ کے اس کمرے میں سینکڑوں کی تعداد میں پینٹینگز موجود تھیں، جس میں تقریباً ڈیڑھ سو  فن پارے اعجاز کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔

سینٹرل جیل کراچی کی آرٹ گیلری

جیل میں 10 سال ہوگئے

’وی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے اعجاز کا کہنا تھا کہ مجھے جیل میں 10 سال ہوگئے ہیں، مجھ پر 365 اے کے تحت اغوا کا کیس تھا، میں اس م میں بری ہوچکا ہوں۔ جیل آنے سے پہلے میں نویں جماعت تک پڑھ چکا تھا، تاہم بعد میں دوران اسیری انٹر کا امتحان پاس کیا۔

اعجاز کے مطابق اسے پینٹگ کا شوق جیل آکر ہوا، اس کے مطابق جیل آنے کے بعد کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کروں لیکن یہاں کا فائن آرٹس اسکول دیکھ کر پینٹنگ کا شوق پیدا ہوا۔ آج مجھے یہ کام سیکھے ہوئے نو سال ہوگئے ہیں۔ پینٹنگ کے ساتھ ایمبرائیڈری اور موتی کا کام بھی کرتا ہوں۔

میں نے اپنے طور پر تھری ڈی پینٹنگ بھی کی ہے۔ میں جیل میں بیٹھ کر اپنی فیملی کو سپورٹ کرتا ہوں۔ اسی اسکول سے میں تقریباً سولہ اسٹوڈنٹس تیار کرکے باہر بھیج چکا ہوں جو اب اپنی فیملی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

فن پاروں کی لندن میں نمائش

اعجاز کہتے ہیں کہ میں اب تک کم و بیش ڈیڑھ سو پینٹنگ بنا چکا ہوں۔ ان میں سے 40 فن پارے فروخت چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری پینٹنگز یہاں سے لندن نمائس کا حصہ بن چکی ہیں، اس نمائش میں صرف میری پینٹگز 3 لاکھ میں فروخت ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب پینٹگز آن لائن فروخت ہو چکی ہیں۔

تیس سے چالیس لاکھ روپے کی کمائی

اعجاز کے مطابق جیل میں بیتے دس سالوں کے دوران انہوں نے تیس سے چالیس لاکھ روپے کمائے، جس سے فیملی کو بھی سپورٹ کرتے ہیں اور وکیل کا خرچ بھی برداشت کرتے ہیں۔ اعجاز کہتے ہیں کہ مجھے آرٹ کا کچھ پتا نہیں تھا مگر یہاں آ کر میں اس فن سے آشنا ہوا، اگر میں جیل سے باہر ہوتا تو شاید اتنا نہ کما پاتا۔

اعجاز کے مطابق انہیں اس کام پر فخر ہے، وہ کہتے ہیں کہ جیل اچھی جگہ نہیں لیکن پینٹنگ کے ذریعے اپنی اصلاح کرتے ہوئے جیل سے باہر نکلوں گا تو اس سے ملک کی خدمت کر سکوں گا۔

روزی گیبریل کو خراج تحسین

اعجاز کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے قیدی جیل کی اس بے کیف و  بے رنگ زندگی کو رنگین بنانے میں مصروف ہیں۔ ان قیدیوں میں چھپی صلاحیتیں نے خود کو جیل کی بلند و بالا فصیلوں کے درمیان محصور نہیں ہونے دیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی پنٹنگز کے موضوعات روایتی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی بھی ہوتے ہیں۔

مثلاً ایک مصور قیدی نے کینیڈیئن موٹرسائیکلسٹ اور  وی لاگر روزی گیبریل کو خراج تحسین پیش کرنے کا انوکھا انداز اپنایا اور اس کی پینٹنگ بنا کر پاکستان کے مثبت پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

سندھ دھرتی کی ’مونا لیزا‘

دوسری جانب ایک قیدی نے مصوری کے مقبول عالم شاہکار ’مونا لیزا‘ کو سندھ دھرتی کے پہناوے میں پینٹ کیا ہے۔ اس کے مطابق دنیا بھر میں ’مونا لیزا‘ کو مختلف انداز میں دکھانے کا رجحان ہے، سو ایسے میں اُس نے ’مونا لیزا‘ کو سندھی لباس میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔

ٹرٹےرائفل

دلچسپ بلکہ مثبت بات یہ ہے کہ مختلف جرائم کی پاداش میں جیل تک پہنچنے والے ان فنکاروں میں جرم سے نفرت پیدا ہوچکی ہے، ایک قیدی کی جانب سے اس بات کا اظہار ٹرٹےرائفل کی پینٹنگ بنا کر امن کے پیغام کی صورت میں کیا گیا ہے۔

جیل کا نگار خانہ

سینٹرل جیل کے اس نگار خانے میں اسماء حسنیٰ، آیات قرآنی، سندھی ثقافت، مذہب سے محبت اور وطن سے الفت کے اظہار پر مشتمل مصوری کے انگنت نمونے شائقین کو دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp