تیئس مارچ کو سرکار نے محفل سجائی اور کامیاب و کامران، بااثر و بامراد شخصیات پر نوازشات کی برسات کر دی۔ کسی کو تمغۂ حُسن کارکردگی عطا ہوا تو کسی کو تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا اور کوئی ستارۂ امتیاز کا حقدار ٹھہرا۔ اعزاز پانے والوں میں شاعر بھی تھے اور ادیب بھی، موسیقار بھی تھے اور فنکار بھی، سائنسدان بھی تھے اور صحافی بھی، مرتبۂ شہادت پانے والوں کے اہل خانہ بھی تھے اور وطن دشمنوں کے مقابلے میں بے جگری سے لڑنے والے پولیس افسران بھی۔ مجھے نہ کسی کے ہنر پر تبصرہ کرنا ہے نہ اعزاز کے میرٹ پر بحث مطلوب ہے۔ مجھے صرف اپنی حیرت کا اظہار کرنا ہے کہ دلیروں، بہادروں اور یکتائے فن کی فہرست میں ’چارسدہ کلا ڈھیر‘ کے ستر سالہ شیر افضل ولد سعد اللہ کا نام شامل کیوں نہیں تھا؟
مذہبی معاملات سے متعلق میرا علم محدود اور عمل محدود تر ہے۔ شہید کون ہوتے ہیں؟ یہ دستار فضیلت کن سروں پر سجتی ہے؟ میں اس کی درست تعریف سے ناآشنا ہوں۔ ہاں اتنا ضرور سنا ہے کہ شہادت ان کا مقدر ٹھہرتی ہے جو راۂ خدا میں جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ جو حق کے لیے لڑتے اور اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردیتے ہیں۔ جو بہادری و شجاعت کا کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دیتے ہیں جو ان کے بعد ان کے ملک و قوم کے لیے سرمایۂ افتخار ٹھہرتا ہے۔
اگر شہادت کا معیار یہی ہے تو پھر شیر افضل کا نام سرِ فہرست ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اخبارات میں اعزاز و اکرام پانے والوں کے نام چھان لیے، ڈھیروں نیوز چینلز کی ہزاروں فوٹیجز کھنگال لیں، لیکن نہ شیر افضل کا نام کہیں نظر آیا اور نہ ان کے پسماندگان کی کوئی تصویر دکھائی دی۔ کوئی خبر، کوئی تبصرہ اور کوئی تجزیہ ایسا نہیں تھا جس میں اُس کا ذکر ہوتا، کوئی سیلفی ،کوئی پوسٹ اور کوئی ٹوئٹ ایسی نہیں تھی جس میں اُس کے اہل خانہ نظر آتے، کسی نے بھی اس کے حق میں سپاس نامہ نہیں پڑھا۔ البتہ ہاتف غیبی کو یہ کہتے سنا:
’خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا‘
سرکاری اعزازات کیسے ملتے ہیں؟ اس میں کاملِ فن ہونے سے زیادہ فنکاری کو دخل ہے۔ اس میں سیاسی رسوخ اور تعلق داری کو رسائی حاصل ہے۔ ہر حکومت اپنے ہَوا خواہوں کے سینوں پر تمغے سجاتی اور اس کہاوت کو سچ کر دکھاتی ہے ’اندھا بانٹے ریوڑیاں مُڑ مُڑ کے اپنوں کو دے‘۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے ساتھ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے خواہشمند جنرل ضیاالحق کے دور میں تیئس مارچ پر عطا کیے جانے والے اعزاز ہوں یا پی ٹی وی ایوارڈز کا معاملہ، ہر جگہ سندھی بھائیوں کو پیش پیش رکھا گیا۔ خیال تھا کہ گلے میں پڑنے والا ’سرکاری اعزاز کا طوق‘ سندھیوں کے دلوں سے سندھی بھٹو کا غم مٹا دے گا، مگر فیصل مسجد کے احاطے میں مدفون ’بتیسی‘ کے وارث کو شاید یہ نہیں پتا تھا کہ سرکاری اعزاز کی رشوت وادیِ مہران کے باسیوں کے دلوں سے بھٹو کی محبت ختم نہیں کر سکے گی۔ آج کوئی ضیاالحق سے اعزاز پانے والوں کا نام تک نہیں جانتا، مگر بھٹو آج بھی زندہ ہے، لوگ آج بھی اس کے نام پر ووٹ دیتے اور نعرہ لگاتے ہیں ’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘۔
اب ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھوں قتل ہونے والے اکبر بگٹی کا غم غلط کرنے کے لیے بلوچوں کو عزت دی جا رہی ہے۔ زندہ یہاں بھی اعزاز اور ایوارڈ نہیں اکبر بگٹی ہے۔
ہر حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ اس موقع پر اپنے لوگوں کو نوازا جائے، لیکن یہ سہرا موجودہ حکومت کے سر ہے کہ جن لوگوں نے عمران خان کے ساتھ مل کر آئین کی پامالی کا کھیل کھیلا، ان میں سے بہت سوں کو سرکاری انعامات عطا کیے گئے۔ جنہوں نے ہائی برڈ نظام کی پرورش میں کردار ادا کیا انہیں کے گلے میں ہار پہنائے گئے۔ جنہوں نے جمہوریت کے خلاف محاذ بنایا انہی کو اکرام سے نواز دیا گیا۔ جنہوں نے نواز شریف کو مجرم ثابت کرنے میں بھرپور تعاون کیا انہیں کو ہیرو قرار دے دیا گیا۔
کہنے کو تو یہ جمہوریت کے عین مطابق ہے مگر جمہوریت کے دشمنوں کی اس حوصلہ افزائی کو نااہلی، نامرادی اور کور چشمی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس زریں کارنامے پر ایک تمغۂ حُسن کارکردگی خود حکومت کے لیے بھی بنتا ہے جب کہ ان لوگوں سے یہ سوال بھی بنتا ہے جو ہر وقت یہ بات کرتے ہیں کہ ن لیگ اپنا بیانیہ کیوں نہیں بنا سکی؟
خیر ذکر ہو رہا تھا شیر افضل کا، آپ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ہم تو شیر افضل کو جانتے ہی نہیں۔ ہمیں نہیں پتا کہ وہ شاعر تھے یا ادیب؟ موسیقی کے رموز سے واقف تھے کہ تاریخ کے نباض تھے؟ حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے تھے یا سرحد پر مصروف جنگ تھے؟ ڈراموں میں ہنر دکھاتے تھے یا سماجی میدان میں نام کماتے تھے؟ وہ میدان سفارت کے شہسوار تھے یا کھیلوں کی دنیا میں ممتاز تھے؟
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا نام کبھی نہیں سنا، ان کا تذکرہ کہیں نہیں پڑھا۔ ان کو کبھی سرکاری تقریبات میں نہیں دیکھا، ان کی شان میں لکھا کوئی قصیدہ نظر سے نہیں گزرا، نہ ان کی دلیری کی داستان نظم ہوئی نہ ان کی شجاعت کا حوالہ داخل نصاب ہوا، نہ ان کا مجسمہ چوک اور چوراہے پر نصب ہوا نہ کوئی یادگار ان سے منسوب ہوئی، جب ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر آخر کون ہے یہ شیر افضل؟
ایسے تمام ناواقفانِ حال کی خدمت میں عرض ہے کہ شیر افضل ولد سعد اللہ ’چارسدہ کلا ڈھیر‘ کا باسی تھا۔ کہنے کو تو یہ ستر سالہ سفید ریش بزرگ اپنے گھر میں اہلیہ اور چار بچوں کو ساتھ سکونت پذیر تھا، مگر عملاً گھر میں غربت کا ڈیرہ اور بے بسی کا بسیرا تھا۔ ہر روز ناگ کی طرح ڈستی مفلسی سے خوفزدہ اس بزرگ نے آمد رمضان کے ساتھ ہی جب یہ سنا کہ حکومت مفت آٹا تقسیم کر رہی ہے، تو اس نے نیلے رنگ کا بوسیدہ سوٹ پہنا اور حکومت کی تعریف کرتا اور کئی کلومیٹر پیدل چلتا ہوا اس مقام پر پہنچا جہاں آٹا تقسیم ہونا تھا۔
جانے اس سفر پر روانہ ہونے سے قبل اُس کی دم ساز بیوی نے اس کے بازو پر امام ضامن باندھا تھا یا نہیں۔ اس کے بچوں نے اسے امید و آرزؤں بھری دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا تھا کہ نہیں۔ بہر حال جب وہ حالتِ روزہ میں حکومت کا قصیدہ پڑھتا اس مقام پر پہنچا جہاں آٹا تقسیم ہو رہا تھا تو وہاں کا منظر ہی کچھ اور تھا۔
دستِ طلب آٹے کے امدادی تھیلوں سے دو چند تھے۔ جس دانۂ گندم نے آدم کو جنت سے نکلوایا تھا آج اسی دانۂ گندم کو پانے کے لیے ابن آدم باہم دست و گریباں تھے۔ بتانے والے بتاتے ہیں شیر افضل بہت بے جگری سے لڑا اپنے بچوں کے حق کے لیے، اپنی سَن رسیدہ بیوی کی بھوک کے لیے، دو وقت کی مفت روٹی کے لیے۔ لیکن جب اس کا نمبر آیا تو اس وقت تک سائلین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا، قطار ہجوم میں اور ہجوم ہنگامے میں بدل گیا تھا۔ ایسے میں عمر رسیدہ شیر افضل مشتعل فاقہ زدگان کے درمیان گِھر کر رہ گیا اور جس وقت اس کا ناتواں جسم تھک کر زمین پر گرا اُس کے اگلے ہی لمحے وہ ہجوم کے پیروں کی خاک بن گیا۔
پہلا روزہ سرکاری لقمے سے کھولنے کی آس لے کر آنے والا شیر افضل اب ہر افطار کی قید سے آزاد اور ہر سحری کی فکر سے نجات پا چکا تھا۔
اسے شہید کیوں نہیں کہنا چاہیے؟ کس قاعدے اور قانون کے تحت اسے شہادت کے مرتبے پر فائز کیا جائے؟ تو بس اتنا جان لیجیے کہ شیر افضل اس سماج کے بے حس سناٹے کا شہید تھا۔ مارِ غربت کے ڈسے کا شہید تھا، وہ ایک گھاٹے کا شہید تھا، وہ آٹے کا شہید تھا۔