پاکستان کی سیاست ایک سنگین نوعیت کے بحران سے دوچار ہے۔ ماضی کے مقابلے میں آج ہماری داخلی و خارجی اور علاقائی سطح کی صورتحال نے ہمیں تنہا کر دیا ہے۔ عمومی طور پر سب ہی فریق تنہائی سے نکلنا چاہتے ہیں۔ سب کی کوشش ہے ایسے راستے کی تلاش جو محفوظ سمت کی طرف لے جائے، لیکن خواہش خواہش کرنا الگ بات او ر خواہش کو عمل میں بدلنا الگ معاملہ ہے۔
اس وقت حکومت اور حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ ریاستی ادارے بھی ’ردعمل کی سیاست‘ کا شکار ہوگئے ہیں، اور ردعمل ’بدلا لینے کی سیاست‘ کو فروغ دیتا ہے۔ مفاہمت کے امکانات بھی وہیں پیدا ہوتے ہیں جہاں فریق ایک دوسرے کے سیاسی قد کاٹھ یا سیاسی وجود کو قبول کرتے ہیں۔ سیاسی معاملات میں مختلف نقطۂ نظر کا ہونا یا تنقید کے پہلو کا موجود ہونا سیاسی و جمہوری روایات کا حصہ ہیں، لیکن اگر سیاسی تنقید یامختلف نقطۂ نظر سیاسی دشمنی میں تبدیل ہو جائے تو پھر مفاہمت کا پہلو پیچھے رہ جاتا ہے۔
مفاہمت کے لیے تمام فریقوں کو سازگار ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے کیونکہ سازگار سیاسی ماحول ہی باہم قبولیت کے نظریے کو فروغ دیتا ہے۔تاہم موجودہ صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ ہم محض سیاسی جنگ نہیں جیتنا چاہتے بلکہ اپنے سیاسی مخالف کے وجود کو ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے بقول اب ہم رہیں گے یا عمران خان رہیں گے اور ہمیں عمران خان کو ختم کرنے کے لیے ہر وہ حربہ اختیار کرنا ہے جو جائز ہو یا ناجائز، جمہوری ہو یا غیر جمہوری ہم گریز نہیں کریں گے۔
اسی طرح کی شدت پسندی ہمیں عمران خان کے حامیوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک طرف سیاسی محاذ پر سیاسی قیادتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنائے ہوئی ہیں، تو دوسری طرف ہمیں سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان بھی ٹکراؤ کا ماحول غالب نظر آتا ہے۔ کوئی فوج یا اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کے ساتھ سیاسی مخالفین پر حملہ آور ہے تو کوئی فوج اور اسٹیبلیشمنٹ پر تنقید کرکے ماحول میں کشیدگی بڑھا رہا ہے۔
عدلیہ کی حمایت اور مخالفت میں چلائی جانے والی مہم بھی اسی کھیل میں غالب نظر آتی ہے۔ بظاہر یہ لڑائی سیاست تک محدود نہیں بلکہ ریاست کے بحران اور ریاستی اداروں سے ٹکراؤ کی کیفیت کی جانب بڑھ رہی ہے۔
انتخابات کے تناظر میں ایک بڑا بحران سر پر کھڑا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود حکمران اتحاد ریاستی اداروں کی مدد سے دو صوبوں کی سطح پر انتخابات سے واضح انکاری ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کو ملتوی کر دیا ہے اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے روبرو ہے، دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا ردعمل دیتی ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ بھی ہو، اہم سوال یہ کہ کیا اس سے سیاسی استحکام ممکن ہوسکے گا؟ اگر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو کیا آئین اور سپریم کورٹ کی ساکھ باقی بچے گی؟ کیا یہ عمل ملک میں ایک نئے آئینی و قانونی بحران کاسبب نہیں بنے گا؟
جو فیصلے سیاسی قیادتوں کو سیاسی فورمز پر کرنے تھے وہ اہل سیاست اپنی نااہلی کی وجہ سے عدالتوں میں لے آئے ہیں، اور اب عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے چاہتے ہیں۔ اگر فیصلہ حق میں نہیں آتا تو پھر عدالتوں پر تنقید میں شدت پیدا کرکے ماحول کو اور زیادہ خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اسی طرح کچھ لوگ جن میں کچھ نامور صحافی بھی شامل ہیں، یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اسٹیبلیشمنٹ طے کرچکی ہے کہ کسی بھی صورت میں عمران خان کی سیاسی مقبولیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک خطرناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے، جو اسٹیبلیشمنٹ پر تنقید کا نیا دروازہ بھی کھول سکتا ہے۔
موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر گزشتہ دنوں سابق وزیر خارجہ اور سیاست دان خورشید قصوری کی سربراہی میں ’پاکستان فورم‘ کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں مجیب الرحمان شامی، سجاد میر، احمد بلال محبوب، بریگیڈیئر فاروق حمید خان، تنویر شہزاد کرنل زیڈ آئی فرخ، توفیق بٹ، میاں سیف الرحمن، میجر ارج زکریا، قیوم نظامی، عبداللہ ملک، سلمان غنی اور مہناز رفیع شامل تھے۔
اجلاس کا موضوع ’پاکستان کی داخلی سیاست اور اس حالیہ بحران سے باہر نکلنے کا راستہ‘ تھا۔ میاں خورشید قصوری کے بقول اگر اس وقت ہماری سیاسی قیادت سمیت اسٹیبلیشمنٹ نے مفاہمت کا کوئی راستہ نہ نکالا تو اس کا نتیجہ ایک ایسے بڑے سیاسی اور آئینی بحران کی صورت میں سامنے آئے گا جو کسی سے نہیں سنبھل سکے گا۔
فورم کے بقول بنیادی نقطہ سیاسی قیادت کو یکجا بٹھانے کا ہے، کیونکہ اس وقت دونوں طرف موجود سیاسی بداعتمادی و ٹکراؤ کا ماحول مفاہمت کی راہن میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ایک تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ عمران خان مفاہمت نہیں چاہتے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ملک میں حکمران اتحاد چاہتا ہے کہ مفاہمت ہو؟ کیونکہ مفاہمت جو بھی ہوگی اس کا ایک عملی نتیجہ انتخابی تاریخ کی صورت میں سامنے آئے گا۔ حکومت اپنی مرضی و منشا اور وقت کے مطابق انتخاب کا انعقاد چاہتی ہے جب کہ عمران خان فوری انتخابات کے حامی ہیں۔
خورشید قصوری کے بقول جو راستہ بھی نکلے گا وہ آئینی راستہ ہوگا جب کہ آئین سے انحراف انارکی کی ایک نئی صورت کو جنم دینے کے علاوہ جمہوری عمل کو کمزور کرنے یا اس میں تعطل پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ لہٰذا جو بھی حالات ہیں اور جیسے بھی حالات ہیں، ہمیں معاملات کو بند دروازوں میں طے کرنے کے بجائے مفاہمت پر زور دینا ہے، اور اس کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا بنیادی ترجیح ہونی چاہیے۔
خورشید قصوری کے مطابق سیاسی تقسیم میں پیدا ہونے والی شدت میں کمی بھی ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ عمل صرف اور صرف بات چیت، مکالمے اور مفاہمت کے ساتھ ہی ہو سکے گا،کیونکہ اس سے انحراف کی پالیسی نے سیاست، جمہوریت، معیشت اور سیکیورٹی کے عمل کو کمزور کردیا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریقین کو سب سے پہلے ’اعتماد کی بحالی پر مبنی اقدامات‘ کو بنیادی نقطہ بنانا ہوگا۔ اس کی ایک شرط یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جو مقدمات سیاسی کارکنوں کے خلاف بن رہے ہیں یا سیاسی قیادت پر دہشت گردی کے مقدمات کو بڑھاوا دیا جا رہا اس کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ بدقسمتی سے یہاں اب ’دہشت گردی پرمبنی مقدمات کو بطور ہتھیار‘ استعمال کیا جا رہا ہے جو حالات میں بلاوجہ کشیدگی پیدا کر رہا ہے۔ اگر ایک طرف مفاہمت کی بات کی جائے اور دوسری طرف سیاسی مخالفین پر دہشت گردی یا ریاستی بغاوت پر مبنی مقدمات بنائے جائیں تو معاملات میں بہتری پیدا ہونے کے بجائے کشیدگی بڑھے گی۔
اسٹیبلیشمنٹ کو بھی اسی نقطہ پر اپنی سوچ آگے بڑھانا ہوگا کہ وہ کسی کی حمایت یا مخالفت میں فریق بننے کی بجائے معاملات کی بہتری کو اپنی ترجیح سمجھتی ہے۔ جو لوگ اسٹیبلیشمنٹ کے ایما پر کسی کے راستے بند کرنے کے پیغامات دے رہے ہیں ان کو بھی واضح پیغام خود اسٹیبلیشمنٹ کو دینا ہوگا کہ ہمارا ایسا ایجنڈا نہیں۔
بنیادی بات انتخابات سے انحراف یا اس میں تاخیری حربے کی ہے اس سے جتنی دور بھاگا جائے گا ہمارے مسائل اور زیادہ بڑھ جائیں گے۔ لیکن انتخابات سے پہلے سیاسی کشیدگی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ انتخابات کی شفافیت کو ممکن بنانے کے لیے اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلت کے بغیر ایک متفقہ فریم ورک پر اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جانا کسی کے مفاد میں نہیں اور اس سے کسی سیاسی قوت کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ عمران خان کا مقابلہ بھی سیاسی انداز ہی میں کرنا ہوگا۔
’اعتماد پر مبنی ماحول‘ پیدا کرنے کی ذمہ داری محض سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ سول سوسائٹی، وکلا تنظیموں اور میڈیا سمیت اہل دانش و بنش کو اجتماعی طور پر اس بحث کو آگے بڑھانا ہوگا۔ سیاسی قیادتوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ مفاہمت کا راستہ اختیار کریں اور ملک کو ایسی جگہ نہ لے کر جائیں جہاں سے کسی کے لیے بھی واپسی کا راستہ ممکن نہ رہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس میں کون پہل کرتا ہے کیونکہ یہ ہی قومی مفاد کا تقاضہ ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔