آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ چکر سے نکلنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ ناگزیر ہوگا، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

پیر 8 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت ٹیکس محصولات میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کا آئندہ بیل آؤٹ پیکج آخری نہیں ہوگا، اگر بیل آؤٹ چکر سے نکلنا ہے تو ٹیکسز بڑھانے ہوں گے، آئی ایم ایف کے 24ویں پیکج کے حصول کے لیے حقیقت پسندانہ اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے۔

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ رواں ماہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کے حصول کے لیے سٹاف لیول معاہدے پر پہنچنے کے لیے کافی پراُمید ہیں، ہم نے اس معاہدے کا تخمینہ 6 سے 8 بلین ڈالر لگایا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کا معاشی سفر مثبت سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ پاکستان سمیت دُنیا بھر کے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ رہا ہے اور ملک کی اسٹاک ایکسچینج انڈیکس 100 سے اُوپر کی سطح پر چل رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بجٹ میں ٹیکس کا ہدف آئی ایم ایف کے مطالبے پر مقرر کیا گیا، وزیرمملکت برائے خزانہ

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اہم معاشی اقدامات اٹھانے کے باوجود پاکستان کو طویل مدتی معاشی ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ابھی بھی بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے، جنہیں دور کرنے کے لیے حکومت مسلسل کوشاں ہے اور ہمیں اُمید ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔

وفاقی وزیر خزانہ کاکہنا تھا کہ پاکستان میں 2000 کی دہائی کے وسط میں ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا، معیشت پر کام کرنے والے حکام عالمی بانڈ ہولڈرز، چین، خلیجی اور دیگر ممالک سے برآمدی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے اور لانے میں ناکام رہے، ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا بھی شدید فقدان رہا، جس سے صنعتی شعبہ بھی زوال پذیر رہا۔

یہ بھی پڑھیں:ایف بی آر نےمالی سال 2024 کے لیےمتوقع ٹیکس وصولی کانظرثانی شدہ ہدف بھی عبورکرلیا

وزیر خزانہ اورنگزیب نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی اصل وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ چوںکہ ملکی معیشت کا انحصار درآمدات پر ہی ہے، جس کے باعث ہمیں موجودہ اور ماضی میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے بار بار آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

 وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے اور صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم قرضوں کی ادائیگی کو ممکن بنا سکیں۔ ہمارے پاس ڈالر ختم ہو گئے ہیں، جب کہ دوسری جانب ہماری معیشت کا درآمدار درآمدات پر ہے، جب ڈالر نہیں ہوں گے تو درآمدات بھی رک جائیں گی، اس لیے ہمیں آخری سہارے کے طور پر قرض دہندہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان کیا طے پایا، کس معاملے پر ڈیڈلاک ہے؟

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک کا دورہ کیا ہے تاکہ ان ممالک سے سرمایہ کاری ملک میں لائی جا سکے تاکہ قرض دہندہ (آئی ایم ایف ) کے ساتھ پاکستان کے 24 واں بیل آؤٹ پیکج میں کامیابی حاصل ہو۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم حقیقت پسندانہ اقدامات اٹھائیں کیوں کہ خلیجی ممالک سمیت دیگر ممالک کو قابل سرمایہ کاری منصوبے فراہم کرنے کی گیند ہماری کورٹ میں ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں کرپشن کے الزامات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ لوگ کرپشن، ہراساں کیے جانے، اسپیڈ منی مانگنے کی وجہ سے ٹیکس اتھارٹی کے ساتھ ڈیل نہیں کرنا چاہتے جو کہ پائیدار نہیں ہے، ٹیکس دہندگان کو تحفظ بھی فراہم کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:یہ حقیقت ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر بجٹ بنانا پڑا، وزیراعظم شہباز شریف

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے لوگوں کی مشکلات کا اندازہ ہے، میں کم از کم بینکنگ سیکٹر میں سب سے زیادہ ٹیکس دہندگان میں سے ایک تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ’ہمیں اپنے پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے 5 سال کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ ’ ہمیں اگلے 2 سے 3 مہینوں میں ہی ڈلیور کرنا ہو گا اور اپنی کارکردگی دکھانا ہوگی۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ ماہ مالی سال25-2024 (مالی سال 25) کے لیے 18.877 ٹریلین روپے کا ٹیکسز سے بھرا بجٹ پیش کیا تھا، جس کا مقصد محصولات میں اضافہ اور آئی ایم ایف جو بار بار ٹیکس وصولی میں بہتری کا مطالبہ کر رہا تھا، کو مطمئن کرنا تھا۔

بجٹ میں آئندہ جولائی تک 13 کھرب روپے جمع کرنے کا ہدف رکھا گیاہے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے، تاکہ قرضوں کے تباہ کن بوجھ کو کم کیا جا سکے جس کی وجہ سے حکومت کی آمدنی کا 57 فیصد سود کی ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے۔

ٹیکسز میں اضافہ کا بوجھ زیادہ تر تنخواہ دار طبقہ پر پڑے گا، جو پاکستان کی زیادہ تر ملکی معیشت کا نسبتاً چھوٹا سا حصہ ہیں، ساتھ ہی کچھ خوردہ اور برآمدی کاروبار بھی ہیں، جن پر ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا ہے، اس کے علاوہ بجٹ میں ٹیکس سے بچنے والوں کے لیے تادیبی اقدامات کی بھی دھمکی دی گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp