’کیا یہ ملک صرف اشرافیہ کا ہے‘، دکاندار پر وکیل کی بیٹیوں کے تشدد نے ہنگامہ برپا کردیا

منگل 9 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لاہور کے علاقے گارڈن ٹاؤن میں دکان پر 3 لڑکیوں نے ٹک شاپ پر نوجوان ملازم کو ہراسانی کا الزام عائد کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

وائرل ویڈیو میں بتایا جارہا ہے کہ 3 لڑکیوں کو ملازم (یوسف) پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے لیکن خاتون ہونے کی وجہ سے کوئی انہیں کچھ نہیں کہہ رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں نے ہراسمنٹ کے قانون کا غلط استعمال کرکے ملازم کو تھانے میں بند کروا دیا حالانکہ اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔

ویڈیو میں بتایا جارہا ہے کہ پولیس اس لیے کوئی بات نہیں سن رہی کیونکہ وہ تینوں لڑکیاں کسی بااثر وکیل کی بیٹیاں ہیں اور ڈی آئی جی اور سی سی پی او سے اپیل کی جارہی کہ یوسف نامی ملازم کو انصاف دیا جائے، قانون سب کے لیے برابر ہے۔

ویڈیو میں مزید کہا گیا کہ اس دوران دکان پر کھڑے گاہکوں میں سے کسی نے لڑکے کو بچانے کی کوشش نہیں کی البتہ ایک بزرگ آگے بڑھے تو لڑکیاں ان پر چیخنے لگیں اور تھانے میں کہا کہ اس بزرگ کو بھی پیش کیا جائے۔ ویڈیو کے ذریعے مزید بتایا گیا کہ ان لڑکیوں نے دکان سے جو کچھ بھی لیا اس کا بل بھی ادا نہیں کیا اور دکان میں توڑ پھوڑ کی۔

بعد ازاں لڑکیوں کے تشدد کا شکار لڑکے کے خلاف ہی مقدمہ درج کروا دیا اور ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا کہ لڑکے نے ہماری نقل اتاری، ہمیں دیکھ کر ہنسا اور پھر ہراساں کیا۔

دکان مالک کے مطابق تھانہ گارڈن ٹاؤن پولیس نے ملازم کو گرفتار کرلیا جبکہ انہوں نے ہراسانی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیاں بڑے وکیل کی بیٹیاں ہیں تو پولیس نے ہماری ایک نہیں سنی، ویڈیو دیکھنے کے باوجود بھی ملازم کو ہی گرفتارکیا۔

ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ صحافی نورین سلیم جنجوعہ نے ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کس وکیل کی بیٹیاں ہیں جو دکان پر کام کرنے والے ملازم کو مستقل زدو کوب کر رہی ہیں؟

طیبہ نامی صارف لکھتی ہیں کہ یہ کس بڑے وکیل کی بیٹیاں ہیں، کیا ان کو غنڈہ گردی کی تربیت دی گئی ہے۔ صارف کا مزید کہنا تھا کہ لڑکیوں نے ملازم کو اتنا مارا لیکن وہ پھر بھی خاموشی سے مار کھاتا رہا۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مار کھانے کے باوجود اسی معصوم بچے کو تھانے میں بند کروا دیا گیا۔

شمع جونیجو نے پولیس کے نظام کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ پولیس کی کیا مجال کہ ملازم کو تشدد کا نشانہ بنانے والی لڑکیوں کو ہاتھ بھی لگائے۔

صحافی مطیع اللہ جان نے سوشل میڈیا پر گردش کرتی خبروں سے متعلق فیکٹ چیک کیا اور بتایا کہ ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ویڈیو میں موجود کوئی لڑکی ان کی بیٹی ہے یا ان لڑکیوں کا کسی بھی طرح کا ان سے کوئی تعلق ہے۔

ایک صارف کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہونا چاہیے۔ انہوں نے مریم نواز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بطور وزیرِ اعلی آپ کو ایسے عام لوگوں کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر آپ کے پاس مسلم لیگ ن کے حامیوں کی جانب سے کوئی تعاون باقی نہیں رہا اور جو تھا وہ پہلے ہی کم ہوتا نظر آرہا ہے۔

سعید نامی صارف لکھتے ہیں کہ کوئی ہے جو اس ملک میں توہینِ انسانیت کا نوٹس لے یا یہ ملک صرف اشرافیہ کا ہے؟

لاہور پولیس کی جانب سے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا کہ 7 جولائی کو لڑکیوں کی طرف سے ہراسگی کی شکایت پر پولیس نے ایف آئی آر درج کی تھی اور آج ویڈیو ثبوتوں کی بنیاد پر دکان پر کام کرنے والے ملازمین کو بری کردیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ان لڑکوں کی طرف سے کوئی درخواست موصول ہونے پر میرٹ کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp