7 جولائی کو گارڈن ٹاؤن لاہور میں واقع ایک ٹک شاپ پر کچھ لڑکیاں خرید و فروخت کے لیے آئیں۔ خریداری کے دوران ان خواتین کو ایسا محسوس ہوا کہ دکاندار ان پر ہنس رہے ہیں اور ان کی نقل اتار رہے ہیں۔ جب لڑکیوں نے ان سے پوچھا کہ کیوں ہنس رہے ہو تو انہوں نے ہراساں کرنا شروع کردیا، اس صورتحال میں کاؤنٹر پر کھڑے ایک لڑکے کو لڑکیوں نے مارنا شروع کردیا اور 15 پر کال کردی جس کے بعد پولیس آئی اور دونوں لڑکوں کو موقع پر حراست میں لے لیا۔
اس واقعے کے بعد خواتین نے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر کروائی جس میں پوری صورتحال کو بیان کیا گیا ہے۔
مگر واقعے کے کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں ایک شخص ویڈیو میں ٓبتا رہا ہے کہ یہ لڑکیاں ایک بڑے وکیل کی بیٹیاں ہیں اور انہوں نے ایک غریب لڑکے پر تشدد کیا ہے، جبکہ لڑکے کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو پر لڑکیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ وکلا کے حوالے سے بھی صارفین نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: ’کیا یہ ملک صرف اشرافیہ کا ہے‘، دکاندار پر وکیل کی بیٹیوں کے تشدد نے ہنگامہ برپا کردیا
لڑکیوں کا والد وکیل نہیں
وی نیوز کو ملنے والی معلومات کے مطابق لڑکیوں میں سے ایک کا نام ایمان زہرہ ہے اور ان کے والد وکیل نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے والد حیات ہیں۔ ٹک شاپ میں آنے والی 2 لڑکیاں آپس میں بہنیں ہیں جبکہ دوسری 2 لڑکیاں ایمان زہرہ کی دوست ہیں۔
لڑکیوں کا مؤقف ہے کہ کاؤنٹر پر کھڑے لڑکوں نے انہیں ہراساں کیا گیا اور انہیں جب لگا وہ محفوظ نہیں ہیں خود کو محفوظ بنانے کے لیے دکاندار پر ہاتھ اٹھایا اور 15 پر کال کرکے پولیس کو بلایا جس کے بعد پولیس نے لڑکوں کو حراست میں لے لیا۔
مزید پڑھیں: راولپنڈی: جنسی ہراسگی اور بلیک میلنگ میں ملوث مجرم کو سخت سزا
عدالت نے ملزمان کو بری کردیا
2 روز قبل تشدد کا نشانہ بننے والے لڑکے سمیت 2 لڑکوں پر ایف آئی آر درج ہوئی تھی تاہم عدالت نے ملزمان کو بری کردیا۔ گارڈن ٹاؤن تھانے کے ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ہمیں ہدایات ہیں کہ اگر کوئی بھی ہراسگی کا واقعہ پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی ایف آئی آر درج کی جائے اور اس کے بعد تفتیش کی جائے۔
مزید پڑھیں:آزاد کشمیر میں خاتون کو پولیس کے ہاتھوں تشدد اور ہراسگی کیوں جھیلنا پڑی؟
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لڑکے کی طرف کوئی درخواست نہیں آئی؟
گارڈن ٹاؤن تھانے کے ایس ایچ او کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں لڑکیاں، لڑکے پر تشدد کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں ابھی تک کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی، اگر کوئی درخواست آئی تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔