پیپلز پارٹی کا آسیب

بدھ 10 جولائی 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کئی برسوں سے سیاست کا چلن یہ ہے کہ سیاست کی گفت و شنید، مار دھاڑ 2 سیاسی جماعتوں کے مابین ہی ہو رہی ہے۔ ساری سیاسی جنگ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کھیلی جا رہی ہے۔ ان جماعتوں کے درمیان ہر موضوع پر وہ اکھاڑہ سجتا ہے کہ کسی اور بحث کی گنجائش ہی نہیں بچتی۔

عوام الناس بھی سیاسی صورتحال کو انہی 2 جماعتوں کے نقطہ نظر سے دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ لوگ کسی بھی قضیے پر یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس مسئلے پر عمران خان کیا کہتے ہیں یا میاں صاحب کیا چاہتے ہیں؟ اس سے زیادہ سیاسی بصیرت ہماری عوام میں ہے ہی نہیں۔

اپنے لیڈران کی پوجا پاٹ میں وہ اس قدر مشغول رہتے ہیں کہ انہیں بسا اوقات سامنے کی بات سجھائی نہیں دیتی۔ آپ خود سوچیے کہ 2 سیاسی ہاتھیوں کی لڑائی کا فائدہ کس سیاسی قوت کو ہورہا ہے؟ اس کی طرف کبھی کسی کی نظر گئی ہے؟ کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ان 2 فریقوں کو دست و گریبان کرکے کون اپنا الو ہر مرحلے پر سیدھا کررہا ہے؟ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ یہاں ذکر اسٹیبلشمنٹ کا ہے مگر نہیں صاحب اور بھی دکھ ہیں زمانے میں۔

پیپلز پارٹی وہ سیاسی جماعت ہے جو گزشتہ کچھ عرصے سے صرف فائدے میں ہے۔ نہ وہ انقلاب لاتے ہیں، نہ ان انقلاب کے سامنے بند باندھتے ہیں۔ نہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، نہ ان کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ نہ حکومت کا ساتھ دیتے ہیں، نہ حکومتوں کا ساتھ چھوڑنے کا عندیہ دیتے ہیں۔ نہ عوام کی آواز بنتے ہیں، نہ عوام کے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ نہ انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہیں، نہ انسانی حقوق کا نعرہ لگانا چھوڑتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں نہ واضح موقف اختیار کرتے ہیں نہ دوٹوک بات کرتے ہیں۔

اس جماعت میں وقتاً فوقتاً وزیراعظم بلاول بھٹو کا نعرہ لگتا ہے، روٹی کپڑے اور مکان کا وعدہ دہرایا جاتا ہے، بھٹو کے زندہ ہونے کے ثبوت بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعت اب صرف موقع کی تلاش میں ایک ایسی جماعت بن چکی ہے جو نہ کسی نظریے کا بوجھ سہار سکتی ہے اور نہ ان سے کبھی کارکردگی کے بارے میں سوال کیا جاسکتا ہے۔

ن لیگ کی 16 ماہ کی حکومت کا سارا بوجھ ن لیگ نے خود اٹھایا، کسی نے سوال نہیں کیا کہ بلاول بھٹو خود اس کی کابینہ میں دنیا بھر کے دورے کرتے رہے، اپنی پارٹی کے لوگوں کو من پسند وزارتیں دلواتے رہے اور اس کے بعد جب حکومت پر کڑا وقت پڑا تو اسی حکومت پر تنقید کرتے رہے جیسے اس حکومت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ یہ تعلق اور لاتعلقی ہی پیپلز پارٹی کی کچھ عرصے سے شناخت اور سیاست ہے۔ آج بھی کسی کو نہیں معلوم کہ پیپلز پارٹی کہاں پر کھڑی ہے؟ کیا حکومت کی اتحادی ہے یا نہیں۔ کیا کڑے وقت میں حکومت کا ساتھ دے گی یا مزید آئینی عہدوں پر بات کرے گی؟

پیپلز پارٹی والے آج جو بیان دے رہے ہیں کہ ہم وزارتیں نہیں لیں گے تو کیا کل انہی وزارتوں کے لیے دست و گریباں نہیں ہورہے ہوں گے؟ آج ن لیگ کے تعاون سے تمام آئینی عہدوں پر قبضے جما چکے ہیں تو کل انہی آئینی عہدوں کی وجہ سے ن لیگ کو دھمکا تو نہیں رہے ہوں گے۔ بنا کسی مؤقف اور نظریے کے یہ طرزِ سیاست پیپلز پارٹی کا کبھی طرزِ عمل نہیں رہا مگر شومئی قسمت اب یہی طرزِ سیاست پیپلز پارٹی کا منشور، منصب اور مقدور ہوچکا ہے۔

پیپلز پارٹی کے موجودہ طرزِ سیاست کو بلیک میلنگ کہا جائے یا جانے کسی اور نام سے پکارا جائے مگر یہ اس کے نظریاتی کارکنان کے لیے حوصلہ شکنی ہی ہے۔ وہ کارکن جو بھٹو کی فراست کے نغمے گاتا تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی دلیری کے قصے سناتا تھا اب اس کے پاس سنانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس نے کبھی ایسی موقع پرست جماعت کا خواب نہیں دیکھا تھا جو موقع دیکھ کر محسنوں کی پیٹھ میں وار کرے۔ جو حق بات پر ہے جمالو کہنے سے انکار کرے، جس کی ساری سیاست ابہام، تذبذب اور بے یقینی کا شکار ہو، جس کے کاندھوں پر بدترین کارکردگی کا بوجھ ہو، جس پر بے پناہ کرپشن کے الزامات ہوں۔ جس کی صفوں میں ایک خاندان ہی مسلط ہو، جہاں آج بھی وڈیروں کی حکومت ہو، جہاں جمہور کی جماعت نام پر ایک خاندان کی اطاعت ہی سیاست ہو۔ جو 2 جماعتوں کی جنگ میں سے اپنا مفاد تلاش کرے۔ حالات کی ستم ظریفی تو دیکھیں کہ کبھی ہم سب سے زیادہ سیاسی شعور رکھنے والے کارکن کو جیالا کہتے تھے اور اب سیاست کی جنگ میں مالِ غنیمت سمیٹنے والے کو جیالا پکارا جاتا ہے۔

لوگ پیپلز پارٹی کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے دیکھتے ہیں کہ کون کون سے آئینی عہدے پر پیپلزپارٹی کے لوگ متمکن ہیں، کون کون سے اختیارات ان کے پاس ہیں۔ کس کس موقع پر یہ جماعت حکومت کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں رہتی ہے۔ کب کب بجٹ سے پہلے اس نے حکومت کی چیخیں نکلوا دیں۔

پیپلزپارٹی کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا یہ مروج طریقہ ہے مگر یہ درست طریقہ نہیں۔ پیپلزپارٹی کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے تو کبھی سندھ کے گوٹھوں میں جاکر دیکھیں جہاں غربت انسانوں پر حکومت کر رہی ہے۔ کبھی کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں میں گمشدہ پیپلزپارٹی کو تلاش کریں، کبھی حیدر آباد کے عوام کے بے مائگی اور بے بسی میں پیپلز پارٹی کی عظمتِ رفتہ کو ڈھونڈیں۔

کبھی اندرونِ سندھ انسانوں اورجانوروں کو ایک ساتھ جیتے، کھاتے، پیتے اور مرتے دیکھیں اور پیپلز پارٹی کے قصیدے پڑھیں، کبھی لاڑکانہ کے نواح میں افلاس سے ڈسے انسانوں میں بھٹو کو تلاش کریں، جس کے زندہ ہونے کا نعرہ لگاتے لگاتے پیپلزپارٹی کے کتنے ورکر اب دفن ہوچکے ہیں مگر نہ اس جماعت کا آسیب ان مفلسوں کے سروں سے ہٹتا ہے نہ کسی اور کو اس خطہ زمین پر سیاست کرنے کا موقع ملتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp