پیرس کی سڑکوں پر گذشتہ شب سیاہ لباس پہنے مختلف حکومت مخالف گروپوں نے کوڑے دانوں کو آگ لگائی اور پولیس پر پیٹرول بم بھی پھینکے جواباً پولیس نے صدر ایمانوئل میکرون اور ان کے انتہائی غیر مقبول پینشن بل کے خلاف مظاہرین پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے آنسو گیس کے شیل پھینک کر منشتر کیا۔
گذشتہ روز فرانس کے شہر رینس، بورڈو اور ٹولوز سمیت دیگر شہروں میں بھی اسی نوعیت کی ریلیوں میں مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں، جس کے دوران نانٹیس میں ایک بینک کی شاخ اور متعدد کاروں کو نذر آتش کر دیا گیا۔
ایک ایسے وقت کہ جب عوامی مایوسی وسیع تر معنوں میں صدر میکرون مخالف جذبات میں بدل گئی ہے اس ہفتہ حکومت مخالف مظاہرے پچھلے ہفتے کے مقابلے میں بڑی حد تک پرامن رہے۔
لیکن انہی جھڑپوں کے دوران مقامی ٹی وی کی براہ راست نشریات میں ایک شخص کو پیرس میں پولیس کے ہاتھوں پٹنے کے بعد زمین پر بے حس و حرکت پڑا دکھایا گیا ہے۔ اسی منظر کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ پولیس نے اس بے یارومددگار شہری کی صحت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
BFMTV a suivi une unité de la Brav-M à Paris, lors de la manifestation contre la réforme des retraites pic.twitter.com/HtasZJOAQq
— BFMTV (@BFMTV) March 29, 2023
پینشن بل پر حکومت اور یونینز کی پوزیشن
اس سے قبل حکومت نے پنشن بل کو معطل کرنے اور اس پر نظر ثانی کے یونینوں کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ پینشن بل کے تحت ریٹائرمنٹ کی عمر میں دو سال کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 64 برس کر دیا ہے۔ مشتعل مزدور رہنماؤں نے حکومت پر اس بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے پر زور دیا ہے۔
حکومت نے یونینوں سے بات چیت پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پینشن کے معاملہ پر ثابت قدم رہتے ہوئے حکومت دوسرے تمام موضوعات پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ وزیر اعظم الزبتھ بورن نے آئندہ ہفتہ یونینوں سے ملاقات کی پیشکش کی ہے۔
اس بل کی مخالفت میں رواں برس جنوری کے وسط سے لاکھوں فرانسیسی شہری مظاہرے کر رہے ہیں اور ہڑتال کی کارروائی میں شریک ہو رہے ہیں۔ یونینوں اگلے ملک گیر احتجاج کا دن 6 اپریل منتخب کیا ہے۔
فرانسیسی حکومت کی جانب سے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بل کو ووٹ کے بغیر پارلیمنٹ کے ذریعے آگے بڑھانے پر ملک بھر میں مظاہروں میں شدت آگئی ہے۔ جسے پیرس کے مظاہرے میں ایک بینر نے خصوصیت سے نمایاں کیا جس پر ’فرانس ناراض ہے‘ تحریر تھا۔
ملازمت کے متلاشیوں کے لیے پول ایمپلائی آفس میں ملازم، 31 سالہ فینی چیریئر سمجھتی ہیں کہ متنازعہ پینشن بل نے صدر میکرون کی پالیسیوں کے خلاف عوامی غیض و غضب کو ابھارنے میں جلتی پہ تیلی کا کام کیا ہے۔
صدر میکرون، جنہوں نے اپنی دونوں صدارتی مہموں میں پینشن میں اصلاحات کا وعدہ کیا تھا، کہتے ہیں کہ ملک کے مالیات کو توازن میں رکھنے کے لیے تبدیلی کی ضرورت ہے جب کہ یونین اور اپوزیشن پارٹیوں کا موقف ہے کہ ایسا کرنے کے اور بھی طریقے ہیں۔
سی ایف ڈی ٹی یونین کے سربراہ لارینٹ برجر نے پیرس ریلی میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ انہوں نے حکومت کو اس بحران سے نکلنے کا ایک راستہ تجویز کیا ہے لیکن انہیں پھر دیوار سے لگایا جارہا ہے جو ناقابل برداشت ہے۔
مظاہروں کے دوران شہری صورتحال
گذشتہ جمعرات کو اسی نوعیت کے مظاہروں کے دوران “بلیک بلاک” کے انتشار پسند عناصر نے دکانوں کے شیشے توڑے، بس اسٹاپ مسمار کیے اور پیرس میں میک ڈونلڈز کے ایک ریستوران میں بھی توڑ پھوڑ کی۔ دوسرے شہروں میں بھی اسی طرح کی کارروائیاں کی گئیں۔
یہ فرانس میں برسوں میں سڑکوں پر ہونے والا بدترین تشدد تھا، جو میکرون کی پہلی میعاد کے دوران یلو جیکٹس تحریک کے احتجاج کی یاد دلاتا ہے۔
مغربی فرانس میں بھی مظاہرین نے رینس رنگ روڈ کو بلاک کر دیا اور ایک لاوارث کار کو آگ لگا دی۔ پیرس اور مارسیلی میں مظاہرین نے کچھ دیر کے لیے ٹرین کی پٹریوں کو بند کر دیا۔
ٹرانسپورٹ، ایوی ایشن اور توانائی کے شعبوں میں ہڑتالوں کے باعث سفر میں خلل پڑتا رہا۔ گزشتہ دنوں کی نسبت ہڑتال پر اساتذہ بھی کم تھے۔ یونین کے رہنماؤں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے کارکنوں کے لیے ایک دن کی تنخواہ کو دھرنے پر قربان کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
تاہم پیرس میں کوڑا اکٹھا کرنیوالے ادارے نے ایک ہفتے سے جاری ہڑتال کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ مشہور سیاحتی مقامات کے آس پاس کی سڑکوں کو جا بجا بکھرے ہوئے کچرے کے ڈھیرسے پاک کیا جاسکے۔
مظاہرین کی تعداد پر سرکاری موقف
فرانسیسی وزارت داخلہ کے مطابق منگل کو ملک بھر میں 7 لاکھ 40 ہزار شہریوں نے احتجاج کیا۔ مظاہرین کی تعداد 23 مارچ کی ریلی میں 10 لاکھ سے زائد شرکا کے ریکارڈ سے کم ہے۔ پیرس میں بھی مظاہرین کی تعداد گزشتہ ہفتے کے ریکارڈ سے کم تھی لیکن جنوری کے بعد سے مظاہروں سے زیادہ یا اس کے برابر تھی۔
حزب اختلاف کے رہنما چارلس ڈی کورسن نے فرانسیسی حکام کو اسرائیل کی صورتحال سے سبق سیکھنے کا مشورہ دیا ہے جہاں حکومت نے مجوزہ عدالتی اصلاحات پر پیش رفت سے گریز کرنا شروع کردیا ہے۔