’بینک سے قرض لے کر جو گھر بنایا، اب وہی گرا رہا ہوں‘

جمعہ 12 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جون اور اگست 2022ء کے درمیان ملک بھر میں شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے مجموعی طور پر 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر جبکہ صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے 34 اضلاع میں 79 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔

2022ء میں طوفانی بارشوں نے چترال میں بھی تباہی مچائی۔ محتلف ندی نالوں میں طغیانی کی وجہ سے دریائے چترال میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے باعث متعدد سڑکیں، پل اور بجلی گھر پانی میں بہہ گئے تھے۔ اپر چترال کے لوگ ابھی 2 سال قبل ہونے والی تباہی سے سنبھلے بھی نہ پائے تھے کہ اب انہیں دوبارہ اسی آفت کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لوئر چترال میں موسلا دھار بارش کے باعث سیلابی صورت حال، لوگوں کی نقل مکانی

خیبرپختونخوا کے ضلع اپر چترال کے گاؤں ریشن کے رہائشی قربان علی شاہ آج کل اپنے اس گھر کو گرانے میں مصروف ہیں جسے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا۔ وہ اپنے گھر کا قیمتی سامان پہلے ہی باہر نکال چکے ہیں، اب بس دروازے اور کچھ دیگر کارآمد سامان ہی بچا ہے جس کو نکالنے کے بعد صرف اس گھر کی یادیں باقی رہ جائیں گی۔

اس گھر کو گرانے میں گاؤں کے رضاکار نوجوان بھی ان کی مدد کررہے ہیں لیکن جس کرب سے قربان علی شاہ گزر رہے ہیں، اسے کوئی اور محسوس نہیں کرسکتا۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے قربان علی شاہ نے بتایا کہ ان کے پاس وقت کم ہے، وہ بے گھر ہورہے ہیں کیونکہ دریا کے ساتھ نیچے کٹاؤ ہورہا ہے اور کچھ دیر میں ان کا گھر بھی دریا برد ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا، ’بینک سے قرض لے کر یہ گھر بنایا تھا، جو آج آنکھوں کے سامنے دریا برد ہورہا ہے، میرا کوئی روزگار نہیں، کوشش کررہا ہوں کہ سامان نکال لوں تاکہ دوبارہ کام آسکے۔‘

ریشن گاوں کہاں واقع ہے؟

ریشن ضلع اپر چترال کا ایک خوبصورت اور سرسبز گاؤں ہے جو چترال ٹاؤن سے اپر چترال کے ہیڈکوارٹر بونی روڈ پر ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ ریشن کے باسی اپنی مہمان نوازی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہاں کی زمین زرخیز ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے پھل بھی مشہور ہیں۔ لیکن گزشتہ چند سال کے دوران قدرتی آفات اور بے موسمی تیز بارشوں سے ریشن گاؤں کافی متاثر ہوا ہے۔

گھروں کو کیوں گرایا جارہا ہے؟

قربان علی کے ساتھ گاؤں کے رضار کار بھی سامان نکالنے میں مصروف ہیں۔ انھوں نے بچوں اور خواتین کے بعد مویشیوں کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کردیا ہے۔

قربان علی شاہ نے بتایا کہ دریا کے کٹاؤ کے باعث ان کے گھر سے متصل مویشی خانہ گرنے سے 2 مویشی گہری کھائی میں گر کر ہلاک ہو گئے تھے جبکہ باقی جانوروں کو رضاکاروں نے محفوظ مقام پر منتقل کردیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ رضاکاروں کی مدد سے دیواریں گرا کر دروازے، کھڑکیاں، چھت پر لگی ٹن کی چادریں اور لکڑیاں نکال رہے ہیں تاکہ اس قیمتی تعمیراتی سامان کو دریا برد ہونے سے بچایا جاسکے اور یہ دوسری جگہ کام آسکے۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا کے متعدد اضلاع میں گلیشئیرز پگھلنے سے سیلابی صورتحال کی وارننگ جاری

قربان علی شاہ کا کہنا تھا کہ دریا چترال میں گرمیوں میں پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے زمین کی کٹائی ہورہی ہے، جس کی وجہ سے پورا علاقہ متاثر ہوا ہے جبکہ بونی پشاور روڈ بھی کئی بار دریا ہوا جس کے باعث رابطہ منقطع ہوجاتا ہے اور اب بھی اس سڑک کے دوبارہ دریا برد ہونے کا خدشہ ہے۔

14 گھر دریا برد ہوچکے

گاؤں ریشن گزشتہ 2 سے 3 سال میں بے موسمی بارشوں، گلیشیئر کے پھٹنے اور دریا کے کٹاؤ کی وجہ سے کافی متاثر ہوا ہے۔ اس برس دریا کے کٹاؤ کے باعث صرف قربان علی شاہ کا گھر ہی نہیں بلکہ دیگر 14 مکانت اور کئی سو ایکڑ زمین اور باغات بھی دریا برد ہوئے ہیں۔

ریشن سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن شہزاد احمد کے مطابق، اب تک 14 سے زائد خاندان بے گھر ہوئے ہیں جبکہ دریا کے کٹاؤ کے باعث مزید گھروں کو بھی خطرہ ہے۔

انہوں نے کہا، ’گھروں کے علاوہ زمینوں اور باغات کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے جن کے بارے میں کوئی نہیں پوچھتا اور نہ ہی اب تک کوئی معاوضہ دیا گیا۔‘

سماجی کارکن شاہد علی بھی قربان علی شاہ کے گھر سے سامان اور مال مویشیوں کو محفوظ جگہ منتقل کرنے میں مدد کررہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آج صبح ہی ایک گھر دریا برد ہوا، مزید گھروں کو خطرہ ہے جس کی وجہ سے مکنیوں کو محفوظ جگہ منتقل کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر خاندان مکمل  طور پر بے گھر ہوگئے ہیں، ان کی زمین ختم ہوگئی ہے اور وہ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔

اوپر گلیشیئر پھٹنے کا خطرہ، نیچے دریا کا کٹاؤ

ضلعی انتظامیہ اور ماحولیات سے متعلقہ اداروں کے مطابق، ریشن گاؤں قدرتی آفات کی زد میں ہے، گاؤں کے اوپر گلیشیئر ہے جس کے پہلی مرتبہ 2013 میں پھٹنے سے تباہ کن سیلاب آیا تھا اور ایک درجن سے زائد مکانوں کو نقصان پہنچا تھا۔

اس کے بعد بھی کئی بار سیلاب آنے سے تباہی ہوئی۔ گزشتہ چند سال سے ریشن میں دریا چترال کا کٹاؤ بھی شروع ہوچکا ہے جس کے باعث بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ سماجی کارکن شہزاد احمد کے مطابق دریا گاؤں سے سینکڑوں فٹ نیچے بہہ رہا ہے مگر اس کے کٹاؤ سے زمین اور گھر دریا برد ہورہے ہیں۔

گزشتہ چند سال میں بڑے نقصانات ہوئے

قربان علی کئی پشتوں سے ریشن میں آباد ہیں۔ یہاں تباہ کن آفات چند سال قبل ہی شروع ہوئیں۔ اس سے پہلے وہ اپنے گاؤں میں پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ قربان علی شاہ کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ان چند برسوں میں ایسا  کیا ہوا کہ قدرتی آفات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

ماحولیات پر کام کرنے والے ماہرین ان تبدیلوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے مقامی آبادی اور حکومتی سطح پر تیاری نہ ہونے کے برابر تھی۔

ماہر موحولیات حمید احمد میرنے وی نیوز کو بتایا کہوہ گزشتہ کئی سال سے چترال میں موسمی تبدیلوں کے حوالے پروجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں قدرتی آفات کا سلسلہ اچانک شروع نہیں ہوا بلکہ اس کے اثرات ایک دہائی قبل ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ موسمی تبدیلوں کے باعث چترال میں موسمی ترتیب میں تبدیلی، بارشوں کی شدت اور درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’جرمن واچ‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک صدی میں پاکستان کے درجہ حرارت میں اعشاریہ 9 سے ایک اعشاریہ 6 تک اضافہ ہوا ہے۔

چترال کے درجہ حرارت میں ایک صدی کے دوران کتنا اضافہ ہوا؟

حمید احمد میر نے کہا کہ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جنوبی شہروں میں اعشاریہ 9 جبکہ شمالی علاقوں میں ایک اعشاریہ 6 کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جو تشویشناک ہے۔

انھوں نے پاکستانی طلبا کی ریسرچ کا حوالہ بھی دیا، جس کے مطابق چترال میں ایک صدی میں درجہ حرارت میں 3 ڈگری سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ حمید احمد میر نے بتایا کہ چترال کا 37 فیصد یعنی 6 ہزار کلومیٹر سے زائد حصہ دریاؤں اور گلیشیئرز پر مشتمل ہے اور موسمی تبدیلوں کے باعث آفات کے خطرات بھی کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 2022 کے سیلاب کے بعد تعمیر نو اور بحالی کے لیے ہونے والی فنڈنگ میں سے پاکستان کو اب تک کتنی رقم موصول ہوئی؟

واضح رہے کہ جون اور اگست 2022 کے درمیان ملک بھر میں شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے مجموعی طور پر 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے۔ صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیلاب سے بری طرح متاثرہ 34 اضلاع میں 79 لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

چترال میں طوفانی بارشوں کے بعد محتلف ندی نالوں میں طغیانی کی وجہ سے دریائے چترال میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب نے تباہی مچا دی تھی جس کے باعث متعدد سڑکیں، پل اور بجلی گھر پانی میں بہہ گئے تھے۔ ضلع اپر چترال کو جانے والا واحد راستہ بونی سڑک سے گزرتا ہے جو 2022ء میں بھی مکمل طور پر بند ہوگئی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp