سپریم کورٹ کا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ

جمعہ 12 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے فل بینچ نے پارلیمنٹ کی مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر مقدمے کا محفوظ شدہ فیصلہ سنادیا ہے، قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کا حق قرار پائی ہیں۔

8 ججوں کے مقابلے میں 5 کی مخالفت سے اکثریتی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نے سنایا، جس کے مطابق پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کو دینے اور پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے اسے برقرار رکھنے کے دونوں فیصلے بھی کالعدم قرار دیدیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے سے طاقتور اور جابر کے ارادوں کو مات ہوئی، سلمان اکرم راجہ

مخصوص نشستوں سے متعلق محفوظ شدہ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستیں تحریک انصاف کا حق تھیں، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے، آئین کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت سے انتخابی نشان نہیں لیا جا سکتا۔

الیکشن کمیشن کا مخصوص نشستوں سے متعلق نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہےکہ انتخابی نشان واپس لینا سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہیں کرسکتا، انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کاحق ختم نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ کی جانب سے فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے جبکہ جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت، جسٹس منیب، جسٹس محمد مظہر،جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس شاہد وحید اکثریتی فیصلے کا حصہ ہیں۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستیں: ہمیں ہمارا حق مل گیا، پی ٹی آئی کا مؤقف

چیف جسٹس قاضی فاٸز عیسی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان نے درخواستوں کی مخالفت کی جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ تحریر کیا، جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق فیصلے کی وجوہات کا ذکر بعد میں کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بطور سیاسی جماعت تسلیم کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کردیں، عدالتی فیصلے کے مطابق سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی، پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا  اترتی ہے۔

پی ٹی آئی کوخواتین اورغیرمسلموں کی مخصوص نشستوں کا حقدار قراردیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت تھی اورہے، تحریک انصاف فیصلے کے  15 روز میں مخصوص نشستوں کے لیے نام جمع کرائے۔

فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے 80 اُمیدواروں کا ڈیٹا جمع کروایا، انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کاحق ختم نہیں ہوتا، عدالت نے کہا کہ دیگر 41 امیدوار  بھی 14 دن میں سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں کہ وہ سنی اتحادکونسل کے امیدوار تھے۔

آزاد اراکین قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن کو ہدایات

عدالتی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ دیں، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹِی آئی سے ہیں وہ ایسا ہی رہے گا، پی ٹی آئی کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا یا آزاد امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 80 آزاد ارکان میں سے 39 ارکان تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں، باقی 41 ارکان 15 دن میں اپنی سیاسی جماعت سے وابستگی واضح کریں کہ انہوں نے کس جماعت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن تصدیق کرکے متعلقہ ارکان کو سیاسی جماعت کا رکن قرار دے، اسی طرح پی ٹی آئی 15 روز میں اپنی مخصوص نشستوں کی فہرست الیکشن کمیشن کو فراہم کرے، فیصلہ تمام قومی و صوبائی اسمبلیوں پر لاگو ہوگا۔

5 ججوں کے اختلافی نوٹ

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ وہ امیدوار جنہوں نے پی ٹی آئی سے وابستگی کے سرٹیفکیٹ دیے ہیں کہ انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار قرار دیا جائے اور پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں، ان کے نزدیک دیگر امیدوار جنہوں نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کی انہوں نے عوامی مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی۔

جسٹس امین الدین خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرتے ہیں جبکہ جسٹس نعیم افغان نے بھی جسٹس امین الدین خان کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن میں ایک نشست بھی نہیں حاصل کی اور اس نے مخصوص نشستوں کی فہرست بھی الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرائی۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کرسکتی، آئین کی تشریح کرتے ہوئے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین پاکستان کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس کے فیصلے کی غلط تشریح کی۔

مخصوص نشستوں کے کیس میں کب کیا ہوا؟

8 فروری انتخابات کے بعد مارچ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 1-4 کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں کیونکہ اس جماعت نے انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی فہرستیں جمع نہیں کرائیں۔

الیکشن کمیشن نے یہ بھی فیصلہ کیاکہ یہ نشستیں پارلیمنٹ میں موجود دوسری جماعتوں کو تقسیم کردی جائیں گی۔ 14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی استدعا مسترد کردی۔ اس کے بعد سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے اپریل میں اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

6 مئی کو سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے ایک بینچ نے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو معطل کرتے ہوئے معاملہ 3 رکنی ججز کمیٹی کو بھجوا دیا جس نے 31 مئی کو اس معاملے پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا۔

فل کورٹ میں اس مقدمے کی پہلی سماعت 3 جون کو ہوئی۔ پہلی سماعت کے موقع پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے عدالت کو مخصوص نشستوں کی تعداد کے بارے میں بتایا۔ اس سماعت پر چیف جسٹس نے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کو صوبہ خیبر پختونخوا کو ’کے پی‘ کہنے سے منع کیا اور کہاکہ وہاں کے لوگ برا مناتے ہیں۔

اسی سماعت پر جب دیگر تمام جماعتوں نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی مخالفت کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تمام لوگ اضافی نشستیں رکھنا چاہتے ہیں۔

’لیڈر کے بغیر پارٹی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی‘

ایک موقع پر چیف جسٹس نے جمیعت علما اسلام (ف) کے وکیل کامران مرتضٰی سے دریافت کیاکہ آپ کی جماعت کا پورا نام کیا ہے؟ جس پر انہوں نے کہاکہ ہماری جماعت کا نام جمیعت علما اسلام پاکستان ہے، اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل بولے اگر آپ کی جماعت سے (ف) نکال دیں تو کیا حیثت ہوگی؟ اس پر کامران مرتضٰی بولے پارٹی کا لیڈر نکل جائے تو کسی کی کوٸی حیثیت نہیں رہتی۔

جسٹس منیب اختر نے کس بات کا برا منایا؟

پہلی سماعت کے موقع پر جب ججز نے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ پر سوالات کی بوچھاڑ کی تو چیف جسٹس نے انہیں جواب دینے سے روک دیا اور کہاکہ ہم آپ کو سننے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں، ہم اپنا فیصلہ کرلیں گے، ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ ازراہ تفنن ایک بات کا ذکر کرنا چاہوں گا میں ایک بار ایک عدالت پیش ہوا تو بینچ سے کہاکہ آپ اگر فیصلہ کرچکے ہیں تو میں اپناکیس ختم کرتا ہوں، اس پر جسٹس منیب اختر نے خاصا برا محسوس کیا اور بولے یہ ایک غیرذمہ دارانہ بیان ہے، فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا اختیار اور حق حاصل ہے، اس قسم کا غیرذمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

’ہمارے سامنے پی ٹی آئی نہیں سنی اتحاد کونسل ہے‘

چیف جسٹس نے بارہا سنی اتحاد کونسل کے وکیل کو بتایا کہ آپ پی ٹی آئی کے وکیل نہیں ہیں، ایک موقع پر انہوں نے کہاکہ میرے قلم نے آدھے گھنٹے سے کچھ نہیں لکھا، اس پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ بولے کہ آپ لکھ لیں کہیں آپ کا قلم خشک نہ ہو جائے۔

’بلے کا نشان، چیف جسٹس اپنے فیصلے کا دفاع کرتے رہے‘

4 جون کی سماعت میں جسٹس منیب اختر نے بلے کا نشان واپس لیے جانے والے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازع کی وجہ بنا اور سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، انہوں نے کہاکہ قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ کیا سپریم کورٹ فیصلے میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہوسکتا؟ جس پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ بولے عدالتی فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا، تو چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کا بہت شکریہ، اس پر جسٹس محمد علی مظہر بولے سپریم کورٹ میں کیس انتخابی نشان کا نہیں انٹرا پارٹی انتخابات کا تھا، اور عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ مخصوص نشستوں کے معاملے پر کوئی ایشو ہوا تو رجوع کرسکتے ہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس بولے ہم نے تو نہیں کہا تھا کہ انٹراپارٹی انتخابات نہ کروائیں، وہ کروا لیتے تو سارے مسئلے حل ہو جاتے، سارا ملبہ اس عدالت پر نہ ڈالیں۔

’پی ٹی آئی اور جمہوریت‘

4 جون کی سماعت میں چیف جسٹس نے کہاکہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروا کر اپنی پارٹی کے لوگوں کو جمہوری حق سے محروم رکھا، جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پھر پوری کی جائے۔

’جسٹس اطہر من اللہ پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک کا تذکرہ کرتے رہے‘

4 جون کی ہی سماعت میں بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اصل اسٹیک ہولڈر ووٹر ہے جو ہمارے سامنے نہیں، پی ٹی آئی مسلسل شکایت کررہی تھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، اس پر چیف جسٹس بولے وہ شکایت ہمارے سامنے نہیں، تو جسٹس اطہر من اللہ نے جواب دیا کہ ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا، ایک جماعت مسلسل شفاف موقع نہ ملنے کا کہہ رہی تھی اور یہ پہلی بار نہیں تھا۔

پی ٹی آئی کا سنی اتحاد سے ادغام ایک غلطی؟

ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہاکہ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو پی ٹی آئی کا کیس اچھا تھا، پی ٹی آئی جا کر کہہ سکتی تھی یہ ہمارے لوگ ہیں نشستیں ہمیں دو، کس دلیل پر پی ٹی آئی کا یہ موقف مسترد ہوتا۔

24 جون کی سماعت میں چیف جسٹس نے کہاکہ منتخب ہونے کے بعد اگر آزاد امیدوار پی ٹی آئی جوائن کرتے تو میرے حساب سے آپ کا کیس اچھا ہوتا، کل سنی اتحاد کونسل کو کنٹرول کرنے والوں کا موڈ بدلا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے۔

’شکوہ، جواب شکوہ‘

24 جون کو مقدمے کی تیسری سماعت پر جسٹس اطہر من اللہ نے ایک بار پھر انتخابی نشان والے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد سیاسی جماعت نہیں رہی، لیکن الیکشن کمیشن کی فہرست میں موجود ایک سیاسی جماعت تو ہے اور الیکشن کمیشن نے اسے ان لسٹڈ سیاسی جماعت تو قرار دیا ہے۔

اس پر چیف جسٹس بولے پی ٹی آئی اگر اب بھی سیاسی پارٹی کا وجود رکھتی ہے تو انہوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی، اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی، یہ تو آپ کے اپنے دلائل کے خلاف ہے۔

’ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی‘

ایک موقع چیف جسٹس نے کہاکہ صدر مملکت کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے بارے میں کہاکہ وہ وزیراعظم تھے اپنی جماعت میں انٹرا پارٹی انتخابات کیوں نہ کروا سکے۔

’پی ٹی آئی کو ہمارے سامنے آنا چاہیے تھا‘

چیف جسٹس اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ مخصوص نشستوں کے معاملے پر سنی اتحاد کونسل کی بجائے پی ٹی آئی کو درخواست دائر کرنی چاہیے تھی۔

’جو کچھ 2018 میں ہوا وہی اس بار ہوا‘

جسٹس اطہر من اللہ نے 24 جون اور آج 9 جولائی کی سماعت پر کہاکہ جو کچھ 2018 کے انتخابات میں ہوا وہی 2024 کے انتخابات میں بھی ہوا۔ جسٹس اطہر من اللہ مسلسل اس بات پر زور دیتے رہے کہ ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنا غلطی تھی۔

مخصوص نشستوں کے کیس میں کن سوالات پر بحث ہوئی؟

کیا خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص، اضافی نشستیں دوسری جماعتوں میں تقسیم ہوسکتی ہیں؟

کیا سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ لیا؟

کیا سنی اتحاد کونسل ایک پارلیمانی جماعت کے معیار پر پورا اترتی ہے؟

اگر آزاد امیدوار اپنی جماعت بنا لیں تو کیا وہ مخصوص نشستوں کے حقدار ہیں؟

انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کی فہرستیں جمع نہ کروانے والی جماعت کیسے مخصوص نشستیں حاصل کرسکتی ہے؟

مخصوص نشستوں کے لیے متناسب نمائندگی کا اصول کیا ہے؟

جب پی ٹی آئی امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ جمع کروائے تو الیکشن کمیشن نے انہیں آزاد امیدوار کیسے قرار دیا؟

سنی اتحاد کونسل کے منشور کے مطابق غیر مسلم رکن نہیں بن سکتا تو اقلیتی نشستیں کیسے دی جائیں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp