اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

ہفتہ 13 جولائی 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

“تم ہو کیا سکتے ہو؟ اور تمہیں ہونا کیا چاہیے؟ اور یاد رکھو! تمہیں ہونا ہے، جو ہونا ہے۔ اور تمہیں وہی ہونا چاہیے، جو ہو سکتے ہو۔ اور جو ہو نہیں سکتے، وہ ہونے کی خواہش بھی نہیں کرنی چاہیے۔ تمھارا یہی ہونا جو تم ہو، مجھے اچھا لگتا ہے۔ مگر تمھارا وہ ہونے کی کوشش کرنا، جو تم ہو نہیں سکتے، مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اچھا یہ بتاؤ ؟ تم ہو کیا سکو گے۔ اور میں تمہیں وہ ہونے نہیں دوں گا۔ جو مجھے پتا ہے، تم ہو نہیں سکتے۔ ”

“پتا نہیں لوگ پھولوں سے اتنا پیار کیوں کرتے ہیں؟ انھیں ہر جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً باغوں میں پھول، شادی ہو تو پھول۔ کسی کو خوش آمدید کہنا ہو تو پھول، قبروں پر پھول۔ پردوں پر پھولوں کی تصویریں۔ اندر پھول، باہر پھول، ہر جگہ پھول ہی پھول۔ آخر کیوں؟ کہتے ہیں پھول خوب صورت ہوتے ہیں اور ان کی خوش بو ہوتی ہے۔ اس لیے لوگ پھولوں سے ہار بناتے ہیں سیبوں سے نہیں۔ حالاں کہ سیبوں سے ہار بنانے کے تین فائدے ہیں۔ پہلا وہ جلدی مرجھاتے نہیں اور ان کی خوش بو ہوتی ہے اور تیسرا جب بھوک لگے ایک لیا اور کھا لیا۔ ”

یہ کسی کتاب کا اقتباس نہیں اور نہ ہی کسی مشہور مفکر کی لب کشائی کو تحریر کی شکل دی ہے۔ یہ میرے گرو، استاد اور راہ نما پروفیسر سیمئول لعل دین کے الفاظ ہیں۔ یہ ان کی کسی تقریر، تحریر یا بھاشن سے نہیں لیے گئے، بلکہ پروفیسر صاحب انگریزی پڑھاتے ہوئے اردو سے انگریزی ترجمہ سکھانے کے لیے فی البدیہہ ایک پیرا لکھوایا کرتے تھے۔ بی اے کے کسی طالب علم کے لیے یقیناً یہ اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنا مشکل ہوگا۔ سیمئول صاحب بیچ میں کہیں ایک موڑ دے کر اردو کا پیرا چھوڑ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اسے انگریزی میں ترجمہ بھی کریں اور آگے بھی بڑھائیں۔

میں نے کئی دفعہ اردو میں ہی مزید کہانی بُن دی اور سیمئول صاحب نے کہا کہ اگر کالج کا میگزین شائع ہوتا تو میں آپ کی تحریر وہاں چھپواتا۔

سیالکوٹیوں کے لیے مرے کالج سیالکوٹ ہی گورنمنٹ کالج لاہور ہے۔ پھر ہر نصابی کتاب میں علامہ اقبال کے بارے میں لکھا ہوتا ہے کہ انھوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی۔ پھر جب فیض صاحب کے بارے میں بھی علم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی اسی کالج سے کسبِ فیض کیا تو لا محالہ آپ سمجھتے ہیں کہ مرے کالج بھی ایک بڑا معتبر علمی ادارہ ہے جہاں علمی ماحول اور اساتذہ اعلیٰ پائے کے ہوں گے۔

بی اے میں داخلے کا وقت آیا تو لگا ایک بڑے تعلیمی ادارے میں پڑھنے کا خواب پورے ہونے کو ہے۔ پراسپیکٹس کا مطالعہ کیا تو کئی سوسائیٹیز کا ذکر تھا اور کئی ایسی غیر نصابی سر گرمیوں کی خبر تھی مگر بعد ازاں مرے کالج کا طالب علم بنے تو علم ہوا کہ کہ اکثر سرگرمیاں محض پراسپیکٹس تک ہی محدود تھیں۔ بی اے کے دو برسوں میں قابلِ ذکر چند دوستوں کا ملنا، پنجابی، اردو کے نامور استاد ڈاکٹر عادل صدیقی کی صحبت، اسلامیات کے استاد سرور صاحب اور مرے کالج کی پُر شکوہ عمارت یا چند تقریری مقابلوں میں شرکت تھی۔ پورے دو برسوں میں احمد رضا چیمہ کی کاوش سے، مرے کالج کی ایک ٹیم کے طور پر پانچ روز کے لیے مجھے، قاری سجاد بیگ اور احمد رضا کو راولپنڈی کے اصغر مال کالج میں منعقد ہونے والے بین الکلیاتی مقابلوں میں شرکت کا موقع ملا جہاں ہم تینوں نے اپنی اپنی طرز سے اپنے نقوش چھوڑے۔ احمد نے تو نعت خوانی کے مقابلے میں اوّل پوزیشن بھی حاصل کی۔

یہاں پر اردو کے مسیحی پروفیسر یوسف نیّر کا تذکرہ کیے بغیر مرے کالج کا ذکر ادھورا رہے گا۔ یوسف صاحب ہمیں پڑھاتے نہیں تھے مگر ان کی ادبی اور سماجی شخصیت کی وجہ سے باہمی طور پر قربت ہو گئی۔ وہ بہت عمدہ اور نامور شاعر تھے۔

زندگی کی لذت سے آشنا نہیں ہوتا
جس کی زندگانی میں سختیاں نہیں ہوتیں

باپ کی محبت میں تشنگی سی رہتی ہے
جب کسی گھرانے میں بیٹیاں نہیں ہوتیں

پیڑمیری دھرتی کے سبز رنگ زیور ہیں
ان میں صرف ایندھن کی لکڑیا ں نہیں ہوتیں

مرے کالج میں بی اے کے دوران سب سے یاد گار اور قیمتی موقع وہ تھا جب ہم چند دوستوں نے سیمئول صاحب سے ٹیوشن پڑھنی شروع کی۔ سیمئول صاحب اُس وقت مرے کالج کے وائس پرنسپل تھے۔ وہ ایم اے انگریزی کو پڑھاتے تھے۔ احمد رضا صدیقی کے بعد وہ چند ماہ پرنسپل کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ آتے جاتے کئی دفعہ ان کو دیکھا تھا۔

درمیانے قد کا سفید بالوں والا سانولا سا شخص بہت بھلا لگتا تھا۔ ایم اے انگریزی کے بلاک کے ساتھ ایک چھوٹا سا قدیمی قبرستان تھا۔ اسکے ساتھ ایک راہ داری جاتی تھی۔ بائیں خوب صورت لان سے متصل ایک قدیم چیپل تھا۔ لان کے ساتھ ہی بیل بوٹے سے اَٹی ہوئی ایک باڑ سی تھی۔ سلاخوں کے اُس پار ایک قدیم شان دار قسم کی کوٹھی تھی جہاں ایک زمانے میں مرے کالج کے پرنسپل رہنے والے انگریز رہا کرتے تھے۔

چیپل کا انچارج بھی پرنسپل ہوا کرتا تھا اس لیے کالج کو قومیائے جانے کے بعد پتا نہیں چیپل کا انچارج کون تھا اور متذکرہ کوٹھی میں کون رہتا تھا البتّہ ہم نے سیمئول صاحب کو ہی اس کوٹھی میں رہتے دیکھا۔ وسیع و عریض لان جو طرح طرح کے پھولوں سے سجا رہتا۔ اکتوبر نومبر کا موسم آتا تو لان میں سلیقے سے کٹی ہوئی گھاس پر رکھی میز کرسیوں پر بیٹھ کر پڑھتے تو ایک نشاط انگیز احساس توانائیوں میں اور اضافہ کر دیتا۔

سیمئول صاحب روایتی استاد نہیں تھے۔ انھوں نے ہمیں ہٹ کر سوچنا سکھایا۔ انگلش تو پتا نہیں آئی کہ نہیں مگر سیمئول صاحب نے انسان بننے کی لگن دل میں ڈال دی۔ کبھی انہوں نے ٹیوشن کے پیسے نہیں مانگے۔ نہ کبھی گنے کہ کون کتنے دے رہا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے ہم دوست ایک ایک مہینے کی فیس مار گئے تھے مگر انھوں نے کبھی باور نہیں کروایا۔

ایک روز آتے ہوئے رش کی وجہ بس میں کہیں قمیص کی سلائی ایک سائیڈ سے اُدھڑ گئی۔ جب سیمئمول صاحب کے گھر سے ملحق اُس دفتر میں پہنچا جہاں وہ پڑھایا کرتے تھے تو میں پِن کی تلاش کرنے لگا تاکہ اُدھڑی ہوئی قمیص کو لگا سکوں۔ سیمئول صاحب کہنے لگے قمیص اگر اُدھڑ گئی ہے تو کیا ہرج ہے؟  آپ نے کون سا جان بوجھ کے کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے زمانہِ طالب علمی میں نوجوان جان بوجھ کر اپنی پینٹ یا شرٹ کسی جگہ سے فیشن کی وجہ سے پھاڑ دیا کرتے تھے۔ فیشن بدلتے رہتے ہیں کبھی کُھلے اور کبھی تنگ پائنچے۔

پھر واقعی ایک وقت آیا کہ نوجوان پھٹی ہوئی پینٹس پہننے لگے اور ابھی تک اس عمل میں مصروف ہیں۔

سیمئول صاحب کہتے تھے لوگ جو دولت اپنے سکون کے لیے اکٹھی کرتے ہیں وہی ان کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہےاور ان کی اولاد اس کے لیے لڑتی ہے۔ وہ کہتے تھے بچوں کے لیے کچھ اکٹھا نہ کریں، وہ جائیداد کی خاطر باہمی طور پر ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے، بس ان کی اچھی تعلیم و تربیت کریں۔

وہ پنجاب یونیورسٹی کے امتحانی پرچہ جات بھی ترتیب دیا کرتے تھے۔ وہ گیراج کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ ایک دن کسی گائیڈ کا پبلشر یہاں نئی پجارو گاڑی لے کر آیا اور کہاں کہ یہ گاڑی سر آپ کے لیے ہے۔

کوئی مخصوص سوال نہیں بلکہ ہماری گائیڈ میں سے پرچہ بنا دیں۔ ظاہر ہے سیمئول صاحب کی طرف سے معذرت ہی ہونی تھی جو جوئی۔

سیمئول صاحب جب پوری قوم یا ملک کی بات کرتے تو وہ جمع کا صیغہ استعما ل کرتے جیسے، “ہم پاکستانی یا ہم مسلمان”۔

وہ اپنے آپ یا اپنی جُز کو کُل سے علیحدہ نہیں کرتے تھے۔

طالب علم کو وہ اپنی شخصیت یا علم سے مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ لیکن طالب علم کو احساس ہوتا تھا کہ میں واقعی ایک استاد سے سیکھ رہا ہوں۔ مضمون نویسی سکھاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہ بیان نہ کرو کہ کیا؟  مگر کیسے؟  چھوٹی چھوٹی تفصیلات بیان کرو۔ دنیا سے ہر بات میں اتفاق نہ کرو۔ لوگ اگر پکنک سے لُطف لے رہے ہیں تو آپ بو ہونے کی کہانی بیان کرو۔ اگر کوئی سوکھا درخت دیکھتا ہے تو تم درخت کی ایک شاخ پر تین زرد پتے دیکھو۔ تم وہ نہ دیکھو جو لوگ دیکھتے ہیں مگر وہ دیکھو جو لوگ نہیں دیکھتے۔

سیمئول صاحب مرے کالج سے ریٹائرڈ منٹ کے بعد سیالکوٹ آرمی پبلک اسکول کے پرنسپل بھی رہے۔ ان کی بیگیم سیالکوٹ سے ہی فیڈرل پبلک اسکول سے ریٹائرڈ ہوئیں۔ بیٹی نے کینئرڈ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی اور آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں۔ سَنی اور بَنی دونوں بیٹے بہت مہذب اور تعلیم یافتہ ہیں۔

بَنی سیمئول صاحب کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ جب کہ سَنی سائیکالوجسٹ ہے۔ ایک دفعہ سیمئول صاحب نے بتایا تھا کہ وہ مری میں رہتا ہے۔ ایک انٹرویو میں سیمئول صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے والد کا تعلق سمبڑیال اور ڈسکہ کے درمیان تاریخی قصبہ بھوپال والا سے تھا اور انہوں نے سیالکوٹ میں مالی کی حثیت سے کام شروع کیا۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اچھی تعلیم دلوائی اور اُسے پروفیسر سیمئول لعل دین بننے میں مدد دی۔

گزشتہ بڑی عید کے دنوں جون کے مہینے میں سیمئول صاحب تقریباً 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ میں سمجھتا ہوں ایسے لوگ کہیں نہیں جاتے، جب تک ان کا فیض جاری رہتا ہے وہ زندہ رہتے ہیں۔ سیمئول صاحب بھی ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp