سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج 8 اور 5 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کو پارلیمانی جماعت کے طور پر تسلیم کرلیا بلکہ سنی اتحاد کونسل میں شامل اراکین کو 15 روز کا وقت بھی دے دیا کہ وہ جس بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونا چاہیں ہو سکتے ہیں۔
اکثریتی فیصلے سے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی سمیت 5 ججز نے اختلاف کیا۔ ہماری عدالتی تاریخ میں ایسا بہت ہی کم دیکھنے میں آیا ہے کہ چیف جسٹس اقلیتی فیصلے کا حصہ ہوں۔ عمومی طور پر چیف جسٹس ہمیشہ اکثریتی فیصلے کا حصہ ہی ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کا اقلیتی فیصلے کا حصہ ہونا کیا حیران کن امر ہے؟
مزید پڑھیں: مخصوص نشستوں کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری، اختلافی نوٹ میں ججز نے کیا کہا؟
جماعت اسلامی پر پابندی کا فیصلہ
سینیئر قانون دان حامد خان کہتے ہیں کہ اس طرح کی 2 مثالیں پہلے سے موجود ہیں۔ 1963 میں جماعت اسلامی پر بین لگا تو اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ اس وقت مولانا مودودی کیس میں بینچ کے سربراہ سابق چیف جسٹس اے آر کارنیلئس نے بطور بنیچ سربراہ اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
مشرف نااہلی کیس
29 ستمبر 2007 کو سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے فوجی سربراہ اور صدر پاکستان 2 عہدوں کے خلاف درخواست ناقابلِ سماعت قرار دے دی تھی۔ مذکورہ درخواست 6 اور 3 کی اکثریت سے مسترد کی گئی جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس رانا بھگوان داس اقلیتی فیصلے کا حصہ تھے۔
ایڈووکیٹ اکرام چوہدری
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ 1980 سے ہائیکورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ کے وکیل رہے ہیں۔ ان کی یاداشت میں ایسا کوئی واقعہ نہیں جب چیف جسٹس اقلیتی فیصلے کا حصہ بنے ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں کتنی نشستیں ملیں گی؟
انہوں نے کہا کہ مولانا مودودی کیس انہیں یاد ہے لیکن تب ججوں کے درمیان اس طرح سے اختلاف نہیں تھا جیسا کہ آج نظر آتا ہے اور یہ مثبت رویہ نہیں ہے۔