بینچ کی تشکیل و ازخود نوٹس فرد واحد کا اختیار نہیں رہا، قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات بل بھاری اکثریت سے منظور

بدھ 29 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحات کا بل ’سپریم کورٹ پریکٹسز اینڈ پروسیجرز‘ منظور کر لیا جس کی ایک شق کے مطابق بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ اب کوئی فرد واحد نہیں بلکہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے۔

عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی جبکہ چند آزاد اراکین نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کا مقصد سوموٹو نوٹس کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو انفرادی حیثیت میں حاصل اختیارات کو کم کرنا ہے۔

بل کو وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیرصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا۔

اس موقع پر وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کل اس ایوان میں ایک بل پیش کیا گیا اور ایوان کا خیال تھا کہ یہ بل عوام دوست ہے جس سے پاکستان کے لاکھوں، کروڑوں عوام کو سپریم کورٹ میں قانونی کارروائی کے حوالے سے کچھ حقوق حاصل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس قانون کی بنیاد کا مطالبہ بارکونسلز کا مطالبہ بھی ہے اور اسی لیے بارز کے عہدیداران اور ارکان بلاامتیاز اس بل کی حمایت کی، بل کمیٹی کو سونپ دیا گیا تھا۔

وزیرقانون نے کہا کہ کمیٹی نے اس بل پر سیر حاصل بحث کی اور اس کے بعد بل کو واضح کردیا اور کچھ ترامیم تجویز کی گئیں اور اس دوران قائمہ کمیٹی قانون اور انصاف نے کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جبکہ اعظم نذیر تارڑ نے بل کے حوالے سے قرارداد کی منظوری دی۔

اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف بھی ایوان میں موجود تھے۔ جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ قانون سازی اس ایوان کا حق ہے، قانون سازی سے کوئی عدالت یا ادارہ روک نہیں سکتا لیکن یہ بل کل رات کو پیش کیا گیا پھر کمیٹی میں گیا اور صبح ساڑھے 9 بجے کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے اس کی منظوری دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کو ڈیڑھ بجے قومی اسمبلی سے منظور کروایا جارہا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی جلدی کی ضرورت کیا تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پر مزید لوگوںسابق چیف جسٹسز سے بھی مشاورت کی جاتی تو بہتر ہوتا۔

منگل کو وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر میں ترمیم کا بل ایوان میں اسی روز پیش کر دیا تھا۔

اس سے پہلے وفاقی حکومت نے عدالتی اصلاحات کے لیے فوری قانون سازی کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت مجوزہ بل میں از خود نوٹس کے خلاف اپیل کے حق سے متعلق قانون سازی کی جانی تھی۔ بل کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس کا اختیار تنہا استعمال نہیں کرسکیں گے۔ وزیرقانون کی سربراہی میں قانونی ماہرین نے تجاویز کو حتمی شکل دی گئی۔

اس حوالے سے وفاقی کابینہ کا فوری اجلاس بھی منعقد کیا گیا تھا جس میں ان مجوزہ قوانین کی منظوری لی گئی اور پھر اسے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا جو بھاری اکثریت سے منظور ہوگیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق بل ممکنہ طور پر جمعرات کو سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے بھی ازخود نوٹس کے معاملے پر ججز کے اختلافی نوٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے  کہا تھا کہ پارلیمینٹ کو اختیار ہے کہ وہ قانون سازی کرے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہاں جنگل کا قانون ہے اور ترازو کا توازن دیکھنے میں نہیں آرہا جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی  فیصلہ سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ از خود نوٹس 4 ججز نے مسترد کیا اس لیے یہ فیصلہ 3-4 کا  ہے۔

سپریم کورٹ کے دونوں ججز نے چیف جسٹس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت عظمیٰ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے اس لیے ون مین شو کے اختیار پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔

ترمیم سے سپریم کورٹ کے طریقہ کار میں کیا تبدیلیاں آئیں گی؟

منظور کردہ سپریم کورٹ پریکٹسز اینڈ پروسیجرز بل کے مطابق آئین کے ارٹیکل 184 تین کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ بنیادی حقوق  سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پر  تین یا اس  سے زائد ججز پر مشتمل بنچ تشکیل دیا جائے گا۔

آئین اور قانون سے متعلق مقدمات میں بینچ کم از کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا۔ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جا سکے ، جسے 14 روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

ہنگامی یا عبوری ریلیف کی لئے کیسز  درخواست دینے کے 14 روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

’زیر التوا مقدمات میں بھی اپیل کا حق ہو گا۔ فریق اپیل کے لیے اپنی پسند کا وکیل رکھ سکتا ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp