وزیر داخلہ بلوچستان کو کوئٹہ دھرنے میں نقاب پوشوں کی موجودگی پر تشویش، مذاکرات کے لیے کمیٹی قائم

ہفتہ 13 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیااللہ لانگو کی زیرصدارت صوبے میں امن و امان سے متعلق اجلاس ہوا ہے جس میں کوئٹہ کے سریاب روڈ پر دیے گئے دھرنے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا اور کہا گیا کہ حکومت  مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن کچھ نقاب پوش افراد کا دھرنے میں موجود ہونا سوالیہ نشان ہے۔ مظاہرین ان سے خبردار ہوں، بعد ازاں دھرنا شرکا سے مذاکرات کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی۔

وزیر داخلہ کی زیرصدارت اجلاس میں صوبائی وزرا میرشعیب نوشیروانی، بخت محمد کاکڑ کے علاوہ آئی جی پولیس عبدالخالق شیخ، کمشنر حمزہ شفقات، ڈی جی لیویز نصیب اللہ کاکڑ، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز گوریہ و دیگر شریک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں چمن میں معمولات زندگی بحال، پاک افغان بارڈر پر ویزے کی شرط کے خلاف دھرنا جاری

آئی جی پولیس اور کمشنر کوئٹہ نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ مظاہرین نے قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے سرکاری املاک، سی سی ٹی وی کیمرے اور پولیس گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ ظہیر زیب کسی بھی ادارے کے پاس نہیں ہے، مذاکرات کے لیے حکومت کے دروازے کھلے ہیں، الزامات سے کسی کا فائدہ نہیں ہوگا۔

شرکا اجلاس نے کہاکہ کچھ نقاب پوش شرپسند عناصر سے مظاہرین خبردار ہوں، حکومت احتجاج کے حوالے سے پہلے ہی روز سے سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

وزیر داخلہ نے کہاکہ عجیب سی بات ہے کہ احتجاج کے دوران نقاب پوش لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، لاپتہ افراد کا معاملہ ہو یا پھرکوئی اور مسائل ہوں، حکومت کے دروازے بات چیت کے لیے کھلے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ امن و امان کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے، حکومت اپنی اس اہم ذمہ داری سے کسی صورت غافل نہیں۔

یہ بھی پڑھیں چمن شاہراہ پر لغڑیوں کا دھرنا فورسز نے ختم کروا دیا، ٹریفک بحال

دوسری جانب حکومت نے دھرنا مظاہرین سے بات چیت کرنے کے لیے مذاکراتی کمیٹی قائم کردی ہے جو شرکا کے مطالبات پر ان سے بات چیت کرے گی۔

مذاکراتی کمیٹی میں صوبائی وزیر بخت محمد کاکڑ، میر لیاقت لہڑی، رکن اسمبلی زرک خان مندوخیل، کمشنر کوئٹہ اور ڈی جی پی ڈی ایم شامل ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ہم نے اوور ورکنگ کو معمول بنا لیا، 8 گھنٹے کا کام کافی: دیپیکا پڈوکون

27ویں آئینی ترمیم کیخلاف احتجاجاً لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شمس محمود مرزا بھی مستعفی

عالمی جریدوں نے تسلیم کیا کہ عمران خان اہم فیصلے توہمات کی بنیاد پر کرتے تھے، عطا تارڑ

جازان میں بین الاقوامی کانفرنس LabTech 2025، سائنس اور لیبارٹری ٹیکنالوجی کی دنیا کا مرکز بنے گی

دہشتگرد عناصر مقامی شہری نہیں، سرحد پار سے آتے ہیں، محسن نقوی کا قبائلی عمائدین خطاب

ویڈیو

گیدرنگ: جہاں آرٹ، خوشبو اور ذائقہ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں

نکاح کے بعد نادرا کو معلومات کی فراہمی شہریوں کی ذمہ داری ہے یا سرکار کی؟

’سیف اینڈ سیکیور اسلام آباد‘ منصوبہ، اب ہر گھر اور گاڑی کی نگرانی ہوگی

کالم / تجزیہ

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں

شکریہ سری لنکا!

پاکستان کے پہلے صدر جو ڈکٹیٹر بننے کی خواہش لیے جلاوطن ہوئے