خوش اخلاق، نرم گفتار اور مظلوموں کے لیے امید کی کرن سمجھی جانے جانے والی پشاور ہائی کورٹ کی واحد خاتون جج مسرت ہلالی خیبر پختونخوا کے اعلی عدالیہ کی پہلی چیف جسٹس بننے جار ہی ہیں۔
مسرت ہلالی پہلی خاتون ہوں گی جو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی حیثیت سے عہدہ سنبھالیں گئیں۔ وہ جج بننے سے پہلے انسانی حقوق کی بھی سرگرم کارکن تھیں اور عدالیہ کی آزادی کی تحریک میں بھی فرنٹ لائن پر رہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی کا تعلق مالاکنڈ ڈیثرون کے قدرے پسماندہ علاقے پالئی سے ہے۔ جو اٹھ اگست 1961 کو پیدا ہوئیں۔ قانون کی ڈگری خیبر لا کالج پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی اور سال 1983 میں ڈسٹرک بار کے ساتھ بطور وکیل انرول ہوئیں اور وکالت کا باقاعدہ آغاز شروع کیا۔ وہ سال 1988 میں ہائی کورٹ اور 2006 سپریم کورٹ میں انرول ہوئیں۔
مسرت ہلالی بار کی پہلی خاتون تھیں جو پشاور بار کی سیکریٹری منتخب ہوئیں اور اس عہدے پر سنہ 1988سے 1989 تک براجمان رہیں اور سنہ 1992 سے 1994 تک مسلسل دو بارنائب صدر بھی رہیں۔ سنہ 1997 میں دوسری بار سیکریٹری منتخب ہوئیں جبکہ وہ سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کی ایگزیکٹیو رکن منتخب ہونے والی بھی پہلی خاتون تھیں۔
مسرت ہلالی بطور وکیل بھی مختلف سرکاری اہم عہدوں پر رہی ہیں۔ سال 2001 بطور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا تعیناتی ہوئیں اور وہ یہ عہدہ سنبھالنے والی پہلی خاتون تھیں۔ انہوں نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کی حیثیت سے 2004 تک کا کیا۔
انہوں نے چئیرپرسن انوائرمینٹل پروٹیکش ٹربنیویل کے طور پر بھی خدمت سر انجام دی اور اس عہدے پر بھی کام کرنے والی وہ پہلی خاتون تھیں۔ وہ صوبائی محتسب بھی رہیں اور پھر 26 مارچ 2013 کو پشاور ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج تعینات ہوئیں جس کے ایک سال بعد ہی وہ پشاور ہائی کورٹ کی مستقل جج بن گئیں۔
بار کی سرگرم رکن
صدر پشاور ہائی کورٹ بار ایسویسی ایشن رحمان اللہ نے مسرت ہلالی کے چیف جسٹس بننے کو اہم قرار دیا ہے۔ رحمان اللہ نے وی نیوز کو بتایا کہ مسرت ہلالی محنت اور جدوجہد کرکے اوپر آئیں اور ان کی زندگی ایک جہد مسلسل میں گزری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’مسرت ہلالی بار کی بھی اہم اور سرگرم ممبر رہی ہیں اور وہ انسانی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ہمیشہ پہلی صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں عدالیہ کی آزادی کی جو تحریک شروع ہوئی تھی مسرت ہلالی اس میں بھی ہت سرگرم تھیں اور اس دوران بھگڈر اور لاٹھی چارچ کے دوران ان کے پاؤں میں فیکچر بھی ہوگیا تھا لیکن وہ ایسے حالات میں بھی عدلیہ اور وکلا تحریک کے لیے فکر مند نظر آتی تھیں۔
رحمان اللہ کا کہنا تھا کہ مردوں کے تسلط اور خاص طور پر پختوں معاشرے میں اعلیٰ عدالیہ کا چیف جسٹس بننا بہت بڑی بات ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ محنت اور لگن سے اہم مقام پر پہنچا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسرت ہلالی کی کامیابی خواتین اور نئی آنے والی فیمیل وکلا کے لیے ایک مثال ہے جو ان کے نقش قدم پر چل کر زندگی میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔
نوجوان وکیل علی گوہر دورانی نے مسرت ہلالی کو مظلموم دوست اور آسانیاں تقسیم کرنے والی ایک جج قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ سنہ 2016 سے مسرت ہلالی کی عدالت میں پیش ہو رہے ہیں اور انہوں نے مسرت ہلالی کو انتہائی نرم مزاج پایا ہے جو کورٹ روم کو شاندار طریقے سے ہینڈل کرلیتی ہیں۔
علی گوہر نے کہا کہ پہلی بار ایک خاتون چیف جسٹس بن رہی ہے جو بہت بڑی بات ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسرت ہلالی کا بطور چیف جسٹس دورانیہ کم ہو گا لیکن امید ہے وہ موثر اقدامات کریں گی اور تبدیلی لے کر ائے گی۔
جج ایک جج ہوتا ہے مرد یا خاتون نہیں!
کورٹ رپورٹر عثمان علی کہتے ہیں کہ مسرت ہلالی تحمل سے سننے والی جج ہیں اور وکیل اور درخواست گزار کو پورا وقت دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسرت ہلالی میڈم کہنے پر ناراضگی کا اظہار کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ انہیں اس لفظ کے بجائے جج کہہ کر مخاطب کیا جائے کیوں کہ جج ایک جج ہوتا ہے خاتون یا مرد نہیں۔
وکلا کی رائے ہے کہ مسرت ہلالی اپنے دور میں انسانی حقوق کے کیسوں پر خصوصی توجہ دیں گی اور زیر التو کیسز کو جلد نمٹانے پر بھی کام کریں گی۔