جنسی و تولیدی صحت تک عام رسائی کیوں ضروری ہے؟

اتوار 14 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے جنسی و تولیدی صحت کی خدمات تک عام رسائی یقینی بنانے اور تولیدی حقوق کو فروغ دینے پر زور دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:2030 تک پاکستان کی آبادی کتنی ہوگی؟ وزارت صحت کا ہوشربا انکشاف

اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اقوام متحدہ کا آبادی فنڈ (یو این ایف پی اے)، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسف)، خواتین کا ادارہ (یو این ویمن) اور یو این ایڈز نے ایک مشترکہ بیان میں اداروں نے حکومتوں، عام شہریوں، سول سوسائٹی اور نجی شعبے پر زور دیا ہے کہ وہ جنسی و تولیدی صحت سے متعلق لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کو اس انداز میں ترقی دیں جس سے صںفی مساوات کو فروغ ملے۔

مایوس کن منظرنامہ

اقوام متحدہ کے ان اداروں کے مطابق لڑکیوں اور خواتین کے جنسی و تولیدی حقوق یقینی بنانے کے معاملے میں گزشتہ 3 دہائیوں میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ 1990 کے بعد جدید مانع حمل طریقے استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد دو گنا بڑھ گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ان اداروں کے مطابق 2000 کے بعد زچہ کی شرح اموات میں 34 فیصد تک کمی آئی ہے۔ 2022 تک ایچ آئی وی کے علاج کی بدولت دنیا بھر میں 20.8 ملین اموات کو روکا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:فلپائن: بچوں کے آن لائن جنسی استحصال کے خلاف متحرک ’سائبر سپاہی‘

تاہم حالیہ عرصہ میں یہ پیش رفت تھم گئی ہے اور بعض ممالک اور خطوں میں صورتحال پہلے سے بھی زیادہ خراب دکھائی دیتی ہے۔ کووڈ۔19 وبا کے اثرات، بڑھتے ہوئے مسلح تنازعات، موسمیاتی تبدیلی، عدم مساوات میں اضافے اور گہری ہوتی ارضی سیاسی تقسیم کے باعث معیاری اور ضروری طبی خدمات تک رسائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔

فوری اقدامات کا تقاضا

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ناکامیاں بہتری کی جانب فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہیں۔ ان مسائل سے خواتین اور لڑکیاں غیرمتناسب طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ ان کے آگاہی پر مبنی فیصلوں اور جبر کے بغیر اپنے مکمل جسمانی اختیار سے کام لینے کی راہ میں رکاوٹ ہیں جو کہ بنیادی انسانی حق ہے۔

جنسی تعلیم کی اہمیت

انسانی حقوق کی بنیاد پر جنسی و تولیدی صحت کی خدمات اور معلومات تک مساوی و پائیدار رسائی بہت سی خواتین کی پہنچ سے دور ہے۔ ان میں خاص طور پر غریب خواتین اور بحران و جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والی بالغ لڑکیاں شامل ہیں۔

تازہ ترین معلومات کے مطابق تولیدی عمر میں نصف سے زیادہ خواتین کو حمل سے متعلق فیصلوں میں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وزن کم کرنے والی ادویات کا غیر محتاط استعمال صحت کے سنگین مسائل کھڑے کرتا ہے، ماہرین

اداروں نے حکومتوں، عطیہ دہندگان، سول سوسائٹی اور نجی شعبے پر زور دیا ہے کہ وہ جنسی و تولیدی صحت کی خدمات کے جامع پیکیج تک رسائی کو بہتر بنائیں۔ یہ خدمات بنیادی مراکز صحت کی سطح پر بھی دستیاب ہونی چاہییں۔

جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت

اقوام متحدہ کے اداروں نے نوجوانوں، خواتین اور دیگر لوگوں کی جانب سے جنسی و تولیدی صحت سے متعلق خدشات پر بات کرنے کی بڑھتی ہوئی کوششوں کی حمایت بھی کی ہے۔

انہوں نے سرکاری و نجی شعبے پر زور دیا ہے کہ وہ ٹیلی میڈیسن اور مصنوعی ذہانت جیسی جدید ٹیکنالوجی کو مزید وسعت دیں تاکہ خاص طور پر دور دراز اور غریب علاقوں میں بنیادی طبی خدمات تک رسائی کو بہتر بنایا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp