الاسکا کی کہانی: وسائل سے مالامال خطہ جو روس نے امریکا کو مجبوراً  بیچ دیا

جمعرات 30 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’آپ کے خیال میں آپ کی کون سی عوامی خدمات امریکی عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی؟‘

’الاسکا کی خریداری‘ ۔۔۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ولیم ہنری سیوارڈ نے حسرت اور امید کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جواب دیا ،’لیکن اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک اور نسل درکار ہو گی‘۔

سیوارڈ کو اپنے اس معاہدے کی بدولت شدید تنقید کا سامنا تھا جو اس نے 30 مارچ 1867ء کو روس کے ساتھ الاسکا کی خریداری کے متعلق کیا تھا۔ امریکی سینیٹرز اور دانشوروں کی بڑی تعداد اس معاہدےکو سیوارڈ کی بیوقوفی سے تعبیر کر رہی تھی۔ وہ الاسکا سے متعلق ان مسائل سے اچھی طرح آگاہ تھے جو روس کو درپیش تھے اور جن کی وجہ سے روس الاسکا سے جان چُھڑانا چاہتا تھا۔اور اب یہ مسائل سیوارڈ کی بیوقوفی کی وجہ سے امریکی قوم کو بھگتنے پڑیں گے۔

الاسکابراعظم شمالی امریکا میں کینیڈا کے شمال مغرب میں واقع وسیع برفانی خطہ ہے۔  روس نے سولہویں صدی ہی سے یہاں قدم جمانے شروع کر دیے تھے، اور اس کی ابتدا سائبیریا  کی مہمات سے ہوئی، جب روس نے منافع بخش کھالوں، قدرتی و سائل اور مذہبی اشاعت کی خاطر سائبیریا میں پیش قدمی کی۔ جلد ہی روس پورے سائبیریا پہ قابض ہو کے مشرق میں بحر اوقیانوس تک جا پہنچا۔ اٹھارہویں صدی کے شروع میں روس کے پیٹر اعظم نے روسی  بحریہ تشکیل دی اور بحر اوقیانوس میں مہمات کے لیے حکم نامہ جاری کیا۔

الاسکا کی خرید و فروخت سے متعلق حتمی معاہدے کا منظر

کہا جاتا ہے کہ روسی بحریہ کے ایک ڈینش افسر ’ویتس برنگ‘ نے سب سے پہلے الاسکا میں اپنے قدم جمائے۔ سائبیریا سے الاسکا کا سمندری فاصلہ صرف اکیاون میل تھا لیکن برنگ اس بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ سائبیریا سے ایک سیدھ میں اس نے سفر شروع کیا تو جلد ہی الاسکا کی خشکی تک پہنچ گیا۔اس کا یہ پہلا سفر انتہائی کامیاب رہا اور روسیوں کو بے بہا قدرتی وسائل، لکڑی، کھالیں اور معدنیات ہاتھ آئیں۔یہ واقعات 1741ء میں وقوع پذیر ہوئے۔

سامان سے لدے جہازوں کے ساتھ جب برنگ واپس روس پہنچا تو روسی تاجروں میں ہلچل مچ گئی اور وہ قدرتی وسائل سے بھرپور اس علاقے میں اپنے قدم جمانے کے لیے پر تولنے لگے۔ بہت سے روسیوں نے الاسکا کا رُخ کیا اور یہاں کے وسائل سے دولت سمیٹنی شروع کر دی، لیکن اس برفانی علاقے میں رہنا کچھ آسان نہ تھا۔ ذرائع نقل وحمل، مواصلات اور کھانے کی ترسیل انتہائی مشکل کام تھے۔ کھانے کے حصول کے لیے روسیوں نے مزید جنوب کی طرف پیش قدمی کی اور کیلیفورنیا تک جا پہنچے۔

ان مسائل کی وجہ سے روسیوں نے الاسکا کو کبھی مکمل کالونی کا درجہ نہ دیا۔ اندرونِ روس سے الاسکا تک سامانِ رسد کی ترسیل اور مشکلات نے آہستہ آہستہ روسیوں کی دلچسپی اس خطے میں کم کر دی۔ اس کے باوجود بیشتر روسی تاجر اس زمین پر روسی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے پر عزم تھے۔ اس کے لیے کئی مقامات پہ روسیوں کو مقامی آبادی سے لڑنا پڑا، جس کے نتیجے میں ایک نئی کشمکش شروع ہو گئی اور مقامی لوگ روسیوں کے مخالف ہوتے چلے گئے۔ 1784ء میں’ گریگوری ایوانوویچ شیلیخوف‘، جس نے بعد میں روسی امریکی کمپنی قائم کی، کوڈیاک جزیرے پر قبضے کے لیے سیکڑوں مقامی باشندوں کو ہلاک کر دیا اور بہت سو کو گرفتار کر لیا۔

روسی زبان میں تحریر معاہدے کا عکس

1790ء میں شیلیخوف نے کھالوں کی انٹرپرائز کے لیے ’الیگزنڈر آندرے بارانوف‘ کی خدمات حاصل کیں، جس کے اقدامات کی بدولت روسی بستیوں کو تحفظ حاصل ہو گیا۔ اس نے روسی کالونی کو کوڈیاک جزیرے کے شمال مشرق کے آخر میں منتقل کر دیا، جہاں وافر لکڑی دستیاب تھی۔ بارانوف کی بدولت جیسے ہی روسیوں کو تخفظ حاصل ہوا، شیلخوف  خاندان نے الاسکا کی کھال کی تجارت پر اجارہ داری حاصل کرنے کے لیے کام شروع کر دیا۔ 1799ء میں شیلیخوف کے داماد ‘نیکولے پیٹرووچ ریزانوف‘ نے زار پال اول سے امریکی تجارت پر اجارہ داری کی اجازت حاصل کرلی ۔اس کے ساتھ ہی رزانوف نے روسی امریکی کمپنی تشکیل دی۔ اس کمپنی نے نئی بستیوں کے قیام اور نوآبادیاتی پروگرام میں توسیع کا کام شروع کر دیا۔لیکن اس توسیعی منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ سامانِ رسد کی بروقت ترسیل کا نہ ہونا تھا، کیونکہ کمپنی کا صرف ایک جہاز دو یا تین سال بعد روسی امریکی چوکیوں کا دورہ کر کے سامان پہنچاتا تھا۔ سپلائی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے روسیوں کومجبوراً برطانوی اور امریکی تاجروں پر انحصار کرنا پڑتا۔ یہیں سے روسیوں کی امریکی اور برطانوی تاجروں سے معاملات شروع ہوئے لیکن بارانوف کو یہ دھڑکا بھی تھا کہ کہیں امریکی اور برطانوی تاجر روسی کالونیوں میں تجاوزات قائم نہ کرلیں ۔

معاملات اسی طرح چلتے رہے اور الاسکا دن بہ دن روس کے لیے ایک مشکل خطہ بنتا چلا گیا۔ اسی دوران  جنگ کریمیا( 1854ء-1856ء) میں روسی اثر و رسوخ کو اس وقت شدید نقصان اٹھانا پڑا جب سلطنت عثمانیہ، سلطنت سارڈینیا، فرانس اور برطانیہ کی متحدہ افواج نے روس کو جزیرہ نما کریمیا اور بحیرہ بالٹک میں بری طرح شکست دی، جس کے نتیجے میں روس معاشی تباہ حالی کا شکار ہو گیا۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے زار شاہی کے لیے الاسکا میں تجارت جاری رکھنا اب ممکن نہ رہا تھا۔ یہ حالات دیکھتے ہوئے روس نے کئی مواقع پر ریاست ہائے متحدہ امریکا کو اپنے زیر قبضہ یہ زمین بیچنے کی پیشکش کی۔ ابتدائی بات چیت شروع بھی ہوئی مگر 1861ءمیں امریکا خود خانہ جنگی کا شکار ہو گیا اور الاسکا کی خریداری کے یہ مذاکرات ملتوی ہو گئے۔ جنگ کے اختتام کے ایک سال بعد ’زار روس الیگزینڈر دوم‘ نے ’روسی وزیر بیرن ایڈورڈ ڈی سٹوکل‘ کو امریکا کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی ہدایت کی۔

الاسکا کی خریداری کے موقع پر ادا کیے جانے والے 7.2 ملین امریکی ڈالر کے چیک کا عکس

سٹوکل نے ایک ثالث  کے ذریعے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ سیوارڈ سے رابطہ کیا۔ سیوارڈ صدر ابراہم لنکن اور صدر اینڈریو جانسن کے دور حکومت میں وزیر خارجہ کے عہدے پہ تعینات تھا۔ وہ امریکی توسیع پسندی کا حامی تھا اور الاسکا خریدنے کی خواہش بھی رکھتا تھا۔

11 مارچ 1867ء کو سٹوکل اور سیوارڈ کے مابین نجی بات چیت کا آغاز ہوا۔ سٹوکل کو الاسکا فروخت کی جلدی تھی اور وہ اس وقت تک انتہائی بے چین رہا جب تک سیوارڈ نے الاسکا خرید کی بات چیت میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ یہ بات چیت کئی روز تک چلتی رہی حتیٰ کہ 29 مارچ 1867ء کو سٹوکل اور سیوارڈ بنیادی نکات پر متفق ہو گئے اور فورا ہی معاہدے کا مسودہ مکمل کیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق الاسکا کی زمین 7.2 ملین ڈالر جو تقریباً دو سینٹ فی ایکڑ بنتی ہے، میں فروخت کی گئی۔ اگلے ہی روز یعنی 30 مارچ 1867ء کوعلی الصبح ہی  معاہدے پر دستخط کر دیے گئے۔

معاہدے کے فورا بعد سیوارڈ نے اسے سینیٹ میں پیش کر دیا۔ کچھ نے اس معاہدے کی حمایت کی لیکن بیشتر نے شدید مخالفت کی۔ عام امریکیوں کا خیال تھا کہ یہ معاہدہ ذاتی مفادات اور بدعنوانی کا مظہر ہے۔ 9 اپریل 1867ء کے نیویارک ٹریبیون کے مطابق سیوارڈ کے حامیوں نے تین بنیادی دلائل پیش کیے جن کی وجہ سے سینیٹ سے الاسکا خریدنے کی ہنگامی منظوری مانگی گئی۔ پہلا یہ کہ یہ خطہ قدرتی وسائل، آب و ہوا، لکڑی کی فراوانی، زرعی زمین، کھالوں کےحصول، ماہی گیری، کوئلہ، سونا ،چاندی اور دیگر معدنیات سے مالامال ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر امریکا نے فوری طور پر اس خطے کے بارے میں فیصلہ نہ کیا تو امریکا اس سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور یہ خطہ کسی اور قوم کی ملکیت بن جائے گا۔ تیسرا یہ کہ معاہدے کی توثیق 90 دن کے اندر ضروری ہے وگرنہ یہ معاہدہ کالعدم سمجھا جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو تمام یورپی حکومتیں اس سے خوش ہوں گی اور امریکا کے تعلقات روس کے ساتھ کشیدہ ہو جائیں گے۔

الاسکا کا ایک خوشگوار منظر

مخالفین کے اعتراضات یہ تھے کہ وہ ایسےخفیہ معاہدے کی منظوری کیسے دے سکتے ہیں جو روسی وزیر اسٹوکل اور امریکی سیکریٹری سیوارڈ کی ذاتی خواہش نظر آتا ہے۔ مزید یہ کہ اس معاہدے کے ساتھ الاسکا کے 40،000 لوگوں کی ذمہ داری بھی امریکی حکومت پر آ جائے گی، جن میں ریڈ انڈین بھی شامل ہیں، جن کا کریکٹر انتہائی خطرناک ہے۔ اس کے علاوہ مخالفین نے ان اخراجات کو بھی بنیاد بنایا جو مستقبل میں اس دور دراز خطے کے لیے درکار تھے۔ بہرحال خاصے بحث و مباحثے کے بعد سینیٹ نے 9 اپریل 1867ء کو معاہدے کی منظوری دے دی۔

18 اکتوبر 1867ء کو الاسکا حوالگی کی تقریب ’سیتکا‘ میں منعقد کی گئی، جس میں روس نے ’کیپٹن الیکسی پیش چوروف‘ کو بطور کمشنر بھیجا اور امریکا کی نمائندگی ’جنرل لوول روسو‘ نے کی جو امریکی خانہ جنگی میں یونین فوج میں جنرل کے عہدے پہ خدمات انجام دے چکا تھا۔روسی کیپٹن الیکسی پیش چوروف نے روسی پرچم سرنگوں کرتے ہوئے اعلان کیا ’جنرل روسو! شہنشاہ روس کی طرف سے عطا کردہ اختیار کے تحت میں الاسکا کی سرزمین ریاستہائے متحدہ کو منتقل کرتا ہوں‘۔ جنرل روسو نے اس علاقہ منتقلی کو قبول کیا۔ کئی قلعے،لکڑی کی عمارتیں اور بلاک ہاوسز امریکیوں کے حوالے کر دیے گئے، ساتھ فوجیوں نے بیرکوں پر قبضہ کر لیا ۔

سیوارڈ نے الاسکا کے بارے میں جو خواب دیکھا تھا، وہ درست ثابت ہوا اور کچھ عرصہ بعد ہی الاسکا میں سونے اور تیل کے ذخائر دریافت ہوگئے۔ الاسکا کی آبادی بڑھنے لگی اور لوگ سونے کی تلاش میں الاسکا میں آباد ہونے لگے۔ 3 جنوری 1959ء میں الاسکا کو ریاستہائے متحدہ امریکا کی انچاسویں (49) اسٹیٹ کا درجہ دے دیا گیا۔ آج الاسکا باعتبارِ رقبہ امریکا کی  سب سے بڑی اسٹیٹ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp