سپریم کورٹ کے از خود نوٹس اختیارات کے حوالے سے پارلیمنٹ میں مجوزہ ترمیم پر جہاں کچھ وکلا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مقدمات میں اپیل کا حق پہلے موجود نہیں تھا جو اب ترمیم کے ذریعے لایا جا رہا ہے اور یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے، وہیں دوسری طرف کچھ وکلا نے اس ترمیم کی ٹائمنگ اور حکومت کی نیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں اور اسے حکومت کی بدنیتی سے جوڑا ہے۔
دوسری طرف ایک انتہائی اہم پیش رفت میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل ایک بینچ نے از خود اختیارات کے تحت زیر سماعت مقدمات کو مؤخر کر دیا ہے۔ دونوں ججز نے آبزرویشن دی ہے کہ ’جب تک بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیارات پر قانون سازی نہیں ہو جاتی، تب تک از خود نوٹس مقدمات پر پیش رفت مؤخر کی جائے‘۔
پیش رفت خوش آئند ہے، کامران مرتضیٰ
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ از خود نوٹس اختیارات میں ترمیم کے حوالے سے بارز ایسوسی ایشنز کا مطالبہ کافی پرانا تھا اور اس پر پیش رفت خوش آئند ہے۔
’ اعتراضات کم ہوں گے‘
کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ازخود نوٹس واحد ایسا معاملہ تھا جس پر متاثرہ فریق کے پاس اپیل کا حق نہیں تھا جو کہ اب اس ترمیم میں لایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ ترمیم میں جلد سماعت کی درخواستوں کے لیے بھی چودہ دن کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے جلد سماعت کی درخواستیں دو دو سال پڑی رہتی تھیں۔ دوسرا بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے کافی اعتراضات ہوتے تھے۔ اب جو مجوزہ ترمیم میں تین ججوں کی کمیٹی بنائی گئی ہے، اس سے بینچوں کے تشکیل کے حوالے سے اعتراضات کم ہوں گے، سپریم کورٹ پر تنقید میں کمی آئے گی اور سپریم کورٹ کا وقار بڑھے گا۔
’حکومت بھی ججوں کے ہاتھ پھنسی ہوئی ہے‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس ترمیم پر ٹائمنگ کے حوالے سے اعتراض اٹھایا جا رہا ہے لیکن اچھا کام جب بھی ہو وہ خوش آئند ہے اور اس وقت حکومت بھی ججوں کے ہاتھ پھنسی ہوئی ہے۔
ترمیم کی سب سے اہم بات اس کی ٹائمنگ ہے، بیرسٹر علی ظفر
مجوزہ ترمیم پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اس ترمیم کے میرٹس پر بات ہو سکتی ہے۔ اس میں کچھ چیزیں اچھی اور کچھ بری ہیں، لیکن میرے لیے اس ترمیم کی سب سے اہم بات اس کی ٹائمنگ ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب انتخابات کے التوا کے حوالے سے مقدمات زیر سماعت ہیں تو ایسی ترمیم کا آنا شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔
’184-3 میں صرف آئینی ترمیم ہو سکتی ہے‘
بیرسٹر علی ظفر کے مطابق دوسرا اعتراض مجھے اس ترمیم کے طریقہ کار پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آرٹیکل 184 تھری میں ترمیم لانی ہے تو وہ دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم ہونی چاہیے۔
جلد بازی میں بدنیتی سے اٹھایا گیا اقدام ہے، بیرسٹر گوہرعلی
اس اہم قانونی ایشو پر بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ میرا یہ خیال ہے کہ یہ بہت جلد بازی میں قدم اٹھایا گیا ہے۔ از خود نوٹس صرف بنیادی حقوق کے لیے لیا جاتا ہے اور چیف جسٹس ہر مقدمے میں تو سو موٹو نوٹس نہیں لیتا۔
’ دنیا میں اداروں کو اپنے قوانین خود وضع کرنے کی آزادی ہوتی ہے‘
مجوزہ ترمیم میں بینچوں کی تشکیل اور ازخود نوٹس اختیارات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججوں پر مشتمعل کمیٹی بنانے کے حوالے سے گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں اداروں کو اپنے قوانین خود وضع کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بینچوں کی تشکیل کا اختیار اگر چیف جسٹس کے پاس ہے تو اس سے باقی جج صاحبان کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے۔
لیول پلیئنگ فیلڈ کی راہ ہموار، عدالتی اصلاحات سے نواز شریف و دیگر کی تاحایات نااہلی ختم ہوسکتی ہے
’مجوزہ ترمیم میں بنیادی حق پر قدغن لگائی جا رہی ہے‘
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ مجوزہ ترمیم میں لوگوں کے درخواست دائر کرنے کے بنیادی حق پر قدغن لگائی جا رہی ہے کہ جب تک تین ججز کسی درخواست کو سماعت کے لیے منظور نہیں کرتے وہ مقرر نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اسے نمبر لگ سکتا ہے۔
آئیڈیا برا نہیں ہے، راجا عامر عباس
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل راجا عامر عباس کا کہنا تھا کہ از خود نوٹس کا آئیڈیا برا نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں اپیل کا حق ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں آپ صرف آرٹیکل 184-3 کی حد تک ترمیم نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لیے آپ کو پورا قانون بدلنا پڑے گا۔
راجا عامر کے مطابق آئین کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنا سکتا ہے اور اگر اس طرح کا کوئی قانون لانا تھا تو اس میں سپریم کورٹ کی مشاورت ضروری تھی۔
’قانون چیلنج ہوا تو مسترد کر دیا جائے گا‘
راجا عامر عباس کا کہنا تھا کہ اس مجوزہ ترمیم سے پی ڈی ایم کی جماعتوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ الیکشن نہ ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی یہ قانون سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا تو مسترد کر دیا جائے گا۔