ٹرمپ پر حملہ: امریکی اور پاکستانی سیاسی منظر نامے میں مماثلت

پیر 15 جولائی 2024
author image

ڈاکٹر راسخ الكشميری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

13 جولائی 2024 کو، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بٹلر، پنسلوانیا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران قاتلانہ حملے نے میڈیا میں وسیع پیمانے پر بحث اور تجزیوں کو جنم دیا ہے، جو شدید سیاسی تقسیم اور بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خدشات کی عکاسی کرتا ہے۔

حملہ آور، تھامس میتھیو کروکس، نے اجتماع کے مقام کے باہر سے سابق امریکی صدر پر فائر کیے، جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور دیگر 2 شدید زخمی ہو گئے۔

دوسری جانب امریکی خفیہ سروس کے فوری ردعمل پر حملہ آور موقع پر ہی ہلاک ہوگیا، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے فعال ردعمل کی تعریف اور متاثرین کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

ری پبلکن پارٹی کے ممتاز رہنماؤں، جیسے سینیٹر جے ڈی وینس اور ٹِم اسکاٹ، نے بائیں بازو اور میڈیا پر ڈونلڈ ٹرمپ کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے کر اشتعال انگیز بیانات دینے کا الزام لگایا، یہ آراء اس تشویش کی عکاسی کرتی ہیں کہ ایسی تصورات ٹرمپ کے خلاف تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں۔

سازشی نظریات بھی تیزی سے پھیلے، کچھ نے دعویٰ کیا کہ یہ کوشش بائیڈن انتظامیہ یا ٹرمپ مخالف دھڑوں کی سازش تھی، ان نظریات کا استعمال عوامی اعتماد کو حکومتی اداروں اور ان کے اقدامات پر کمزور کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جو سیاسی اور سماجی تقسیم کو بڑھاتا ہے۔

حملے اور سیکیورٹی اقدامات کی تفصیلات پر ابتدائی توجہ کے باوجود، ایک تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے واقعات کا استعمال سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ سازشی نظریات عوامی رائے کو منقسم کرنے اور حقیقی تحقیقات سے توجہ ہٹانے کا ہدف رکھتے ہیں، جو کسی بھی معاشرے میں تقسیم کو گہرا کرتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر، ایسے واقعات نہ صرف امریکی جمہوریت کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ امریکی معاشرے میں گہری تقسیم کی نشاندہی کرتے ہیں۔

گزشتہ سالوں میں پاکستان اور امریکا دونوں ممالک میں سیاسی تقسیم کا مسئلہ ایک اہم موضوع رہا ہے، اور اس میں خاص طور پر تحریک انصاف کے پاکستان میں عروج اور ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی سیاست میں اہمیت کے تناظر میں بعض مماثلتیں بھی موجود ہیں۔

مثال کے طور پر عمران خان اور ٹرمپ دونوں رہنما غیر روایتی سیاستدانوں کے طور پر سامنے آئے، جو اپنے عوامی بیانیے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مقبول ہوئے، عمران خان نے تبدیلی اور انصاف کے نعرے پر سیاست کی جبکہ ٹرمپ نے امریکا کو دوبارہ عظیم بنانے کا نعرہ بلند کیا۔

دونوں نے عوامی تحریکوں کی بنیاد پر سیاست کی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عوامی اجتماعات اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا، یہ طریقہ کار عوامی رائے کو متحرک کرنے اور اپنے مخالفین کے خلاف بیان بازی کے لیے بخوبی استعمال کیا گیا۔

پاکستان میں تحریک انصاف اور امریکا میں ٹرمپ نے میڈیا کو نہ صرف اپنی حمایت کے لیے استعمال کیا بلکہ مخالف میڈیا کو بھی بھرپور نشانہ بنایا۔ دونوں نے میڈیا کو ’جھوٹا اور جانبدار‘ قرار دیا، جس نے سیاسی ماحول کو مزید تقسیم سے دوچار کیا۔

دونوں سیاسی رہنماؤں نے اپنے اپنے ممالک میں سازشی نظریات کو فروغ دیا، جس نے اداروں پر عوامی اعتماد کو کمزور کیا، پاکستان میں، عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے جبکہ ٹرمپ نے امریکی انتخابات کے نتائج کو متنازعہ بنایا۔

تحریک انصاف اور ٹرمپ دونوں نے اپنے اپنے ممالک میں عدلیہ، الیکشن کمیشن اور دیگر ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس نے اداروں کی ساکھ کو متاثر کیا اور عوام میں بے اعتمادی کو فروغ دیا۔

دونوں رہنماؤں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سخت زبان استعمال کی، جس نے سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کیا، عمران خان نے اپنے مخالفین کو ’کرپٹ اور مافیا‘ قرار دیا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخالفین کو ’دشمن اور بنیاد پرست‘ قرار دیا۔

پاکستان اور امریکا میں سیاسی تقسیم سے متعلق مسائل میں مماثلتیں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ عوامی تحریک، میڈیا کا کردار، سازشی نظریات، اداروں پر حملے، اور سیاسی مخالفین کے خلاف بیان بازی ایسے عوامل ہیں جو دونوں ممالک میں سیاسی تقسیم کو بڑھاوا دیتے ہیں، تاہم، ہر ملک کا مخصوص سیاسی اور سماجی سیاق و سباق بھی ان مسائل کو اپنے طریقے سے متاثر کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp