سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر

پیر 15 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان مسلم لیگ ن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پرنظر ثانی کی درخواست دائر کردی ہے، درخواست لیگی صدر میاں محمد نواز شریف کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ

ن لیگ نے اپنی نظرثانی کی درخواست میں سپریم کورٹ سے 12 جولائی کے فیصلے پر حکم امتناع کی بھی استدعا کی ہے۔

Review Petition-2 FINAL by Asadullah on Scribd

درخواست میں سنی اتحاد کونسل، صاحبزادہ حامد رضا، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ سے سے استدعا کی گئی ہے کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد فوری طور پر روکا جائے۔

نظر ثانی درخواست میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا ہے جبکہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست میں ایسی کوئی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے: مخصوص نشستیں: ہمیں ہمارا حق مل گیا، پی ٹی آئی کا مؤقف

نواز شریف کی درخواست میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان، پشاور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے جو درخواست تھی اس میں صرف یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار ہے کہ نہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی 2 الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے حکمنامے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دونوں جماعتوں کو ایک ہی تصور کر لیا ہو۔

نظر ثانی درخواست میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے نہ تو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں کوئی مقدمہ دائر کیا، نہ پشاور ہائی کورٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ میں، پی ٹی آئی کو تو کوئی ریلیف دینا بنتا ہی نہیں تھا جبکہ وہ ریلیف دے دیا گیا جو انہوں نے مانگا ہی نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستیں: ریلیف مانگنے سنی اتحاد کونسل گئی تھی مگر ریلیف پی ٹی آئی کو دے دیا گیا، وزیر قانون

درخواست میں کہا گیا کہ 80 ایم این ایز نے بطور آزاد امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور جیتنے کے بعد سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی لیکن کسی ایک بھی امیدوار نے اس کے برعکس بیان نہیں دیا لہٰذا سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ یہ امیدواران پی ٹی آئی کے تھے مفروضے پر مبنی ایک بات ہے جس پر نظرثانی کیے جانے کی ضرورت ہے۔

نظر ثانی درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 41 آزاد اراکین کو سیاسی جماعت میں شمولیت کے لیے 15 روز کا وقت دینا نہ صرف الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے بلکہ آئین کے اندر ایک نئے تصور کی اختراع اور پہلے سے موجود عدالتی تشریحات کے صریحا خلاف ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی اپنے مختصر اختلافی نوٹ میں لکھا کہ جس بھی امیدوار نے بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیا یا پی ٹی آئی کی جانب سے اپنی نامزدگی کو واپس لیا اس کو پاکستان تحریک انصاف کا امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

عدالت سے درخواست میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 51 ڈی اور ای کے مطابق انتخابات کے 3 روز کے اندر امیدواروں کو مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور آئین کے برخلاف کوئی نیا طریقہ کار وضع نہیں کیا جا سکتا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ  سپریم کورٹ کا حکمنامہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست میں اٹھائے گئے سوالات کے بارے میں مکمل خاموش ہے کہ کیا سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دی جا سکتی ہیں؟ کیا ایک ایسی جماعت کو مخصوص نشستیں دی جا سکتی ہیں جس نے پہلے سے مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی فہرستیں جمع نہ کرائی ہوں، کیا آزاد امیدوار ایک ایسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں جس نے پارلیمان میں ایک نشست بھی نہ جیتی ہو، کیا مخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں اور سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کی تقسیم کس اصول کے تحت ہوتی ہے۔

نظر ثانی دردخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے مختصر حکمنامے میں مذکورہ سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے اس لیے اس فیصلے کو منسوخ کیا جائے اور اس سے قبل اس فیصلے کو معطل کیا جائے۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ درخواست کو جلد از جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp