پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ: ’عطاتارڑ کی پریس کانفرنس تھی یا خیالی پلاؤ؟‘

پیر 15 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی عائد کرنے اورعمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید ردعمل دیا جا رہا ہے۔ صحافی صدیق جان نے اس پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگا نہیں سکتی اور فرض کریں اگر ایسا ہو بھی گیا تو سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبلیو ایم موجود ہیں، عمران خان سے ان کی جان نہیں چھوٹنے والی۔

سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی جماعت پر پابندی لگا دینے سے اس جماعت کی قیادت کو ختم نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ تاریخ کا وہ سبق ہے جو پیپلز پارٹی کو سمجھ آ چکا ہے لیکن مسلم لیگ ن کو ابھی سمجھ نہیں آیا۔

ایم کیو ایم لندن کے رہنما مصطفیٰ عزیز آبادی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے جیسے فیصلوں سے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر تو پابندی لگائی جاسکتی ہے لیکن عوامی سیاست ختم نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے مسلم لیگ ن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دامن پر ایک یہی داغ باقی تھا آج وہ بھی لگوالیا، ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ کیا عوام اس فیصلے کو مانیں گے؟

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نعیم حیدر پنجوتھہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی باتیں کرنے والے اپنی قبر کھودنے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا حکم سپریم کورٹ بھی صرف اس صورت میں جاری کر سکتی ہے جب کوئی جماعت پاکستان کے خلاف ہو اور ہماری جماعت چند اشخاص کی پالیسیوں کے خلاف ہے ملک کے خلاف نہیں۔

انہوں نے ن لیگ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کو ملک دشمن جماعت کہنا ن لیگ کی بے شرمی اور ڈھٹائی ہوسکتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، عمران خان پاکستان کی خودداری اور مضبوطی کے لیے ہی جیل میں قید ہیں۔

ایک صارف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو ختم کرنے والے خود ختم ہو گئے، پی ٹی آئی ایک سوچ ہے اور سوچ کو نہ کوئی ختم کر سکتا ہے، نہ قید اور نہ ہی اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔

 صارف نے ن لیگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پہلے یہ پی ٹی آئی کے ساتھ لڑ رہے تھےاور اب عدالتوں کے ساتھ لڑیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے پارٹی کو توڑا لیکن ہم الیکشن جیت گئے اور اب بھی ہم ہر حد تک جائیں گے۔

نوشین نامی صارف نے پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کی پریس کانفرنس تھی یا خیالی پلاؤ؟

صحافی شہزاد اقبال نے کہا کہ جمہوری دور میں آمرانہ فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ ایک طرف معیشت کا برا حال ہے، عوام مہنگائی میں پس چکے ہیں مگر حکومت کا فوکس پی ٹی آئی پر پابندی لگانے، صنم جاوید اور عمران خان کو گرفتار کرنے پر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی اصل لڑائی پی ٹی آئی سے نہیں عدلیہ سے ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان نے ن لیگ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی کوشش کر کے دیکھ لو، اللہ اور قوم ہمارے ساتھ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp