گزشتہ سال 3 نومبر کو 90 روز میں انتخابات سے متعلق مقدمات کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے ایک 3 رکنی بینچ نے ریمارکس دیے تھے کہ اس وقت کے صدر پاکستان عارف علوی کی جانب سے غیر قانونی طریقے سے اسمبلیاں تحلیل کرنا سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ اس مقدمے سے متعلق حکمنامے میں چیف جسٹس نے لکھا کہ ہر غیر آئینی اقدام کے دوررس نتائج ہوتے ہیں۔
7 اپریل 2022 کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے سابق صدر کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کو بحال کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں حکومت کا پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور عمران خان پر آرٹیکل 6 کے تحت ریفرنس لانے کا فیصلہ
اسی تناظر میں آج وفاقی وزیراطلاعات عطااللہ تارڑ نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری کے خلاف سنگین غداری مقدمے کی کارروائی شروع کرنا چاہتی ہے۔
24 جون 2013 کو اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان سے تحریری درخواست کرے گی کی جنرل مشرف کو آئین پامال کرکے ایمرجنسی لگانے پر آرٹیکل 6 کے تحت سزا دے، سپریم کورٹ نے اس درخواست کو منظور کیا جس کے بعد نومبر 2013 میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمے کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی، جس نے ٹرائل مکمل کرکے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔
وی نیوز نے آئینی و قانونی ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا عارف علوی، عمران خان اور قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے؟
جب تک آئین و قانون فعال ہے، سنگین غداری کا اطلاق نہیں ہوسکتا، امان اللہ کنرانی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سنگین غداری کا مقدمہ پارلیمنٹ کی منظوری سے چلایا جا سکتا ہے اور اس میں حکومت کے بجائے پارلیمنٹ کا کردار ہے۔
انہوں نے کہاکہ سنگین غداری ایکٹ 1974 جس کے رولز ہائی ٹریزن اسپیشل کورٹ ایکٹ 2005 میں بنائے گئے اس کے تحت پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت سنگین غداری کے تحت ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت قائم کرتی ہے۔
امان اللہ کنرانی نے کہاکہ سپریم کورٹ نے سابق صدر عارف علوی کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور پھر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے فیصلے میں تحریر کیاکہ حکومت اگر چاہے تو اس اقدام کو پارلیمنٹ میں لے جاسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں حکومت پابندی لگانے کی آخری کوشش کرکے بھی دیکھ لے، پاکستان تحریک انصاف
انہوں نے کہاکہ جب تک آئین اور قانون فعال ہے، عملی طور پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ممکن نہیں۔ آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کا مطلب ہے کہ آپ کسی کو سزائے موت سنانے جا رہے ہیں۔ مارشل لا میں تو ایسا ہوسکتا ہے لیکن جمہوری ادوار میں یہ ممکن نہیں۔ پہلے ہی سپریم کورٹ نے ایک وزیراعظم کو پھانسی کی سزا سنائی اور آج تک داغ دھونے کی کوشش کررہی ہے۔
عمران خان، عارف علوی، قاسم سوری پر آرٹیکل 6 لگانا ممکن نہیں، کامران مرتضٰی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور جمیعت علما اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضٰی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آئینی اور قانونی طور پر عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری کے خلاف سنگین غداری اور آرٹیکل 6 کی کارروائی ناممکن ہے، ملک کا پہلے ہی بیڑہ غرق ہے اس قسم کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
کامران مرتضٰی نے کہاکہ غالباً عطااللہ تارڑ نے آرٹیکل 6 پڑھا ہی نہیں، وہ آئین کو معطل کرنے یا آئین توڑنے پر لگایا جاتا ہے، آرٹیکل 6 ایوب خان، ضیاالحق اور مشرف پر لگایا جاسکتا ہے۔ ’آرٹیکل 6 لگانا وفاقی حکومت کا اختیار ہے لیکن ایسا اختیار نہیں کہ میرے اور آپ سمیت کسی بھی بندے پر لگا دیا جائے، آرٹیکل 6 اس پر لگتا ہے جس نے طاقت کے زور پر آئین کو پامال کیا ہو‘۔
انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف پر پابندی لگانے کی بات کرکے حکومت نے ایک اور جھک ماری ہے۔
آرٹیکل 6 کی کاروارئی ممکن ہے، ایڈووکیٹ شاہ خاور
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان شاہ خاور ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے سابق وزیراعظم عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف جو آرٹیکل 6 یا سنگین غداری کے تحت کارروائی کا عندیہ دیا ہے اس کی غالباً بنیاد یہ ہے کہ جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو قاسم سوری نے بطور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اسے غیر آئینی قرار دیا۔
انہوں نے کہاکہ قاسم سوری کی جانب سے دی گئی رولنگ کے بعد عمران خان نے آئین کے آرٹیکل 58 کے تحت صدر کو اسمبلیاں توڑنے کی سفارش کی جو انہوں نے توڑ بھی دیں، اور پھر سپریم کورٹ نے ان سارے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تو میرے خیال سے حکومت اس تناظر میں ان تین مذکورہ شخصیات کے خلاف آرٹیکل 6 یا سنگین غداری کی کارروائی کا آغاز کرنا چاہتی ہے۔
’سنگین غداری مقدمے کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت تشکیل دی جائے گی‘
ایک سوال کہ آیا یہ آئینی اور قانونی طور پر ممکن ہے؟ شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہاکہ بالکل یہ ممکن ہے اور 1974 کا ہائی ٹریزن ایکٹ موجود ہے اور وفاقی حکومت جب فیصلہ کرلے تو وہ سپریم کورٹ کو سفارش کرتی ہے یا ریفرنس بھیجتی ہے، جس طرح سے جنرل مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ بنایا گیا، جس کے بعد سنگین غداری مقدمے کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت تشکیل دی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے یا رہنما پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں فضول ہیں، فرحت اللہ بابر
پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس تناظر میں بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود ہے کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ ذرائع سے غیر ملکی فنڈنگ حاصل کی تو اس لیے پی ٹی آئی پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔
شاہ خاور نے کہاکہ بنیادی طور پر یہ پریس کانفرنس ایک ردعمل ہے، اور جنگ اب آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔
عدالت کسی قانون کو غیر آئینی قرار دے تو کیا غداری کا مقدمہ ہوگا؟ بیرسٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اور سینیئر قانون دان بیرسٹر علی ظفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سنگین غداری کے مقدمے کی منظوری پارلیمنٹ نہیں، وفاقی کابینہ دیتی ہے، اور پھر ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجا جاتا ہے جس کے بعد خصوصی عدالت کے ذریعے سے ٹرائل ہوتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ سنگین غداری کا تعلق آئین توڑنے سے ہے، جس بنیاد پر موجودہ حکومت سنگین غداری کا مقدمہ بنانا چاہ رہی ہے، اس طرح تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس بارہا پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کو خلاف آئین قرار دے چکی ہیں، تو کیا ساری پارلیمنٹ کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج ہوگا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ ہماری جماعت اور دوسری جماعتوں کے سیاستدان کئی بار مختلف واقعات کی بنا پر سنگین غداری مقدمات بنانے کی باتیں کرتے ہیں تو میں انہیں منع کرتا ہوں کہ ایسا نہ کیا جائے۔