حکومت پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان 7 ارب ڈالر قرض کا معاہدہ طے پا گیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ زرعی آمدنی اور ریٹیل سیکٹر پر ٹیکس عائد کیا جائے گا، جبکہ دیگر شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کرکے ٹیکس پیئرز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آئی ایم ایف نے نئے معاہدے سے قبل حکومت سے کون سے شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں ٹیکسز میں مزید اضافوں کی شرائط کیساتھ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالرز کا اسٹاف لیول معاہدہ طے پاگیا
وی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ آئی ایم ایف اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے وفود کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں عالمی مالیاتی ادارے نے مطالبہ کیاکہ زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے جس پر صوبائی حکومتوں نے بھی آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ مان لیا ہے، اب 6 لاکھ سے زیادہ سالانہ زرعی آمدنی والوں کو ٹیکس ادا کرنا ہوگا جبکہ ایک کروڑ سے زیادہ سالانہ آمدنی والوں کو انکم ٹیکس کی طرح 45 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
آئی ایم ایف نے رواں سال اکتوبر تک زرعی آمدنی اور لائیو اسٹاک سیکٹر پر ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے یہ ٹیکس نافذ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
آئی ایم ایف نے حکومتی وفد کے ساتھ مذاکرات میں ریٹیل سیکٹر پر بھی ٹیکس بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے، اس کے علاوہ ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والے ٹیکس میں بھی اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں ہمیں محنت کرنا ہوگی، تب ہی یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، وزیراعظم
عالمی مالیاتی ادارے نے اسٹاف لیول معاہدے کے بعد اعلامیہ بھی جاری کیا ہے جس کے مطابق پاکستان کو فسکل اور مانیٹری پالیسی میں اصلاحات، ریاستی ملکیتی اداروں کے انتظامی امور کو بہتر کرنا، انسانی وسائل کو بڑھانا ہوگا اور ملک میں سرمایہ کاری کے لیے اچھا ماحول فراہم کرنا ہوگا۔
آئی ایم ایف کے مطابق 2023 میں پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بعد گزشتہ سال پاکستان میں مہنگائی میں کمی ہوئی، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا اور ملک میں معاشی استحکام بھی بڑھا۔ اب نئے معاہدے سے ٹیکس آمدنی میں اضافہ ہوگا اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں 3 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔