آزاد کشمیر میں 969 میگاواٹ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ فالٹ لائن کے قریب تعمیر کیا گیا ہے جو مستقبل میں زلزلے یا سیلاب کے نتیجے میں بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی حالیہ بندش کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی اپنی رپورٹ تیار کررہی ہے جو جلد وزیراعظم کو پیش کی جائے گی۔ تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ فالٹ لائن کے قریب تعمیر کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی بندش سے کروڑوں روپے کا نقصان، ابتدائی رپورٹ وزیراعظم کو پیش
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تعمیر کا کام 2005ء کے زلزلے کے بعد شروع ہوا جبکہ اس کا ڈیزائن زلزلے سے پہلے تیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے میں نوسیری سے شروع ہونے والی ٹنل فالٹ لائن سے گزرتی ہے۔
ذرائع نے کہا کہ 2005ء کے تباہ کن زلزلے کی وجہ مظفرآباد اور اس کے نواح میں پہاڑیاں بھی اندر سےٹوٹ پھوٹ چکی ہیں اور کمزور ہوئی ہیں جس کے باعث اس منصوبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں ڈیم کے ایک طرف مکمل طور پر کنکریٹ جبکہ دوسری جانب پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زلزلے، سیلاب یا بادل پھٹنے کے نتیجے میں آنے والی طغیانی اس منصوبے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
وزیراعظم کو بریفنگ میں کیا بتایا گیا؟
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے زیرصدارت منعقدہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ میں پیدا ہونے والی حالیہ خرابی کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ شاہد خان نے وزیراعظم کو ابتدائی رپورٹ پیش کی تھی۔
اس موقع پر وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ 2022ء میں منصوبے کی ٹیل ریس ٹنل میں خرابی کی وجہ سے بجلی کی پیداوار معطل ہوئی اور اس منصوبے کی تعمیر میں جیو فزیکل اور سیسمک عوامل کو نظر انداز کیا گیا۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ہیڈ ریس ٹنل کی مناسب کنکریٹ لائننگ نہیں کی گئی، منصوبے کی بروقت تھرڈ پارٹی ایویلویشن بھی نہیں کروائی گئی، یہ منصوبہ ہیڈ ریس ٹنل میں خرابی کی وجہ سے 2 مئی سے بند ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ کی بندش، قومی خزانے کو سالانہ کتنے ارب روپے نقصان ہو رہا ہے؟
وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی حالیہ بندش کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ فوری طور پر مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماہرین نے نشاندہی کی کہ ڈیزائن میں خرابیاں ہیں، کنکریٹ لائیننگ نہیں کی گئی اور اتنے بڑے اور اہم منصوبے میں مجرمانہ غفلت برتی گئی۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
آڈیٹر جنرل کی 2016ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2005ء کے زلزلے سے پہلے اس علاقے کی سیسمک اسٹڈی کی گئی تھی لیکن زلزلے کے بعد کوئی سیسمک اسٹڈی نہیں کی گئی، زلزلے کے باعث اس علاقے کا کچھ حصہ متاثر ہوا تھا جہاں اب یہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ 32.5 کلومیٹر طویل ٹنل سسٹم کے ذریعے دریائے نیلم کا رخ موڑ کر بنایا گیا ہے جس میں 20 کلومیٹر (ٹی بی ایم ) سرنگ بھی شامل ہیں۔
پروجیکٹ ڈیزائن سے مظفرآباد کے درجہ حرارت میں تبدیلی واقع ہوئی؟
آزاد کشمیر کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سردار محمد رفیق خان نے وی نیوز کو بتایا کہ نیلم جہلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے ڈیزائن کی وجہ مظفرآباد کے درجہ حرارت میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق، آزاد کشمیر میں 50 سال کے دوران درجہ حرارت میں 2 ڈگری اضافہ ہوا ہے جبکہ 2016ء سے 2022ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق، 7 سال کے دوران مظفرآباد کے درجہ حرارت میں 1.4 ڈگری کا اضافہ ہوا ہے۔
سردار رفیق نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں جب انہوں نے اس کا موازنہ کوٹلی، راولاکوٹ اور گڑھی دوپٹہ کے ساتھ کیا تو گزشتہ 7 برسوں میں کوٹلی، راولاکوٹ، گڑھی دوپٹہ کے موسم میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی جبکہ مظفرآباد کے درجہ حرارت میں 1.4 ڈگری کا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مظفرآباد کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی بڑی وجہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ہے کیونکہ جب سے یہ منصوبہ فعال ہوا تب سے یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹنل کے ذریعے دریائے نیلم کا رخ موڑ کر دریائے جہلم میں ڈالا گیا ہے جس کی وجہ سے مظفرآباد کے ایک بڑے حصے میں پانی کم ہو گیا ہے اور دریا میں پانی کم ہونے کی وجہ سے مظفرآباد کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔
’قدرتی چشمے خشک ہوگئے ہیں‘
سردار رفیق کا کہنا تھا کہ دریائے نیلم میں بہنے والا گلیشئرز کا ٹھنڈا پانی سیدھا مظفرآباد پہنچتا تھا تو گرمی کو جذب کرلیتا تھا جس کی وجہ سے مظفرآباد کا درجہ حرارت برقرار رہتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ برائے تحفظ ماحولیات کی جانب سے نوسیری ڈیم اور مظفرآباد کے پانی کا موازنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مظفرآباد میں پانی کے درجہ حرارت میں 5 ڈگری کا فرق ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نوسیری سے دومیل تک پانی کی کمی اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے آبی حیات اور شہریوں کی صحت کو نقصان پہنچا ہے، دریاؤں کا رخ موڑنے کی وجہ سے قدرتی چشمے خشک ہوئے ہیں اور واٹر ریچارج سسٹم بھی مثاتر ہوا ہے۔
سردار رفیق نے کہا کہ مظفرآباد میں پانی کی فراہمی کا انحصار دریائے نیلم پر ہے اور پانی کی کمی کی وجہ سے مظفرآباد شہر میں واٹر سپلائی سسٹم متاثر ہوا ہے جبکہ آجکل نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ بند ہونے کی وجہ سے دریائے نیلم میں پانی معمول کے مطابق ہے اور گرمی کی شدت میں بھی واضح کمی محسوس کی جارہی ہے۔
’مچھلیوں کا ایکو سسٹم تباہ ہوگیا‘
ماہر حیاتیات پروفیسر ڈاکٹر نزہت نے وی نیوز کو بتایا کہ جب ڈیمز بنائے جاتے ہیں تو دریا کا ایکو سسٹم تبدیل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں درخت، جانور اور مچھلیاں سبھی شامل ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث انسانی زندگی کیسے متاثر ہو رہی ہے؟
انہوں نے کہا کہ جیسا نیلم جہلم پن بجلی منصوبے کے ڈیزائن ہے، اس طرح کے ڈیزائنز کی وجہ سے مچھلیوں کی نقل مکانی کا سلسلہ رک جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دریائے نیلم کی مخصوص گہرائی تھی جس میں مچھلی زندہ رہتی تھی اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ بننے کے بعد دریائے نیلم کے پانی میں کمی اور درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے مچھلیوں کا ایکو سسٹم تباہ ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر نزہت کا کہنا تھا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے ڈیزائن میں ریور ڈائیورشن نہیں ہونی چاہیے تھی، اگر پروجیکٹ کو رن آف دی ریور بنایا جاتا تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کے ڈیزائن میں مچھلیوں کے لیے فش پاسسز بنائے جانے چاہئیں تھے تاکہ مچھلیاں پانی کے راستے آرام سے نقل مکانی کرپاتیں۔
انہوں نے کہا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کا ڈیزائن ترقی یافتہ ممالک میں ڈیمز کے ڈیزائنز کی طرح نہیں، اگر یہ ڈیزائن بھی ویسا ہی ہوتا تو مچھلیاں اپنے پرانے راستوں سے نقل مکانی جاری رکھ سکتی تھی۔