پاکستان میں وسیع و عریض علاقوں میں جہاں گندم کے سنہرے کھیت ہلکی ہوا میں جھوم رہے ہیں وہیں ان کھیتو ں کے سروں پر ماحولیاتی تغیرات کا ایک خاموش خطرہ منڈلا رہا ہے۔
اے پی پی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور موسموں کی شدت بڑھ رہی ہے ویسے ویسے کسانوں، سائنسدانوں اور پالیسی سازوں کوبہت سے چیلنجزکا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلیاں، بچے اور دنیا کا مستقبل
گندم جو کہ پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے اہم ترین فصل ہے اور آبادی کے لیے بھی ایک اہم خوراک ہے خاص طور پر ماحولیاتی تغیرات کے منفی اثرات کے باعث شدید خطرے میں ہے۔ گرم آب و ہوا اور بے وقت کی بارشیں اس توازن میں خلل ڈالتی ہے جس میں گندم پروان چڑھتی ہے۔
اس کے اثرات پورے زرعی ماحولیاتی نظام میں پھیلتے ہیں جس سے غذائی تحفظ، اقتصادی استحکام اور ماحولیاتی استحکام کو اہم خطرات لاحق ہیں۔
اس تناظر میں کلائمیٹ، انرجی اینڈ واٹر ریسورس انسٹیٹیوٹ( سی ای ڈبلیو آر آئی ) اور نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر ( این اے آر سی) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بشیر احمد کا کہنا ہے ماحولیاتی تغیرات ہماری اہم فصلوں پر 5سے15فیصد تک اثر انداز ہوتے ہیں جن میں ایک براہ راست اثرات ہوتے ہیں جیسا کہ جب زیادہ بارشیں یا درجہ حرارت میں اضافہ ہوتو اس سے نئی نئی بیماریاں جنم لیتی ہیں، دوسرا بلاواسطہ اثرات ہوتے ہیں کیونکہ زراعت کے لیے ہمارا 70 فیصد پانی گلیشیئر اور برف کے پگھلنے سے آتا ہے اور گلوبل وامنگ کے باعث گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تغیرانسانی ترقی کے باعث جو مضر صحت گیسیں یا جی ایس جی امیشن بہت زیادہ ہورہی ہیں یہ گلوبل وارمنگ کا موجب بن رہی ہیں۔ دوسری وجہ جنگلات کو تیزی سے ختم کرنا ہے کیونکہ درخت سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں دیمک کا کیا کردار ہے؟
بشیر احمد نے کہا کہ مختلف مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اگر ایک ڈگری درجہ حرارت بڑھتا ہے تو نہ صرف ہمارے بلکہ ایچ کے ایچ ریجن کے گلیشیئر تقریبا 35 فیصد تک پگھل جاتے ہیں اور اگر 2 ڈگری درجہ حرارت بڑھتا ہے توتقریباً 64 فیصد گلیشیئر پگھلے گا اس سے ایریگیشن کی سپلائی بھی متاثرہو گی جس سے زراعت کا شعبہ بھی متاثر ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں سال گندم کے سیزن میں ہونے والی بارشوں کے کافی منفی اثرات ہوئے ہیں تاہم ابھی تک اس کے اعدادوشمار کا تخمینہ نہیں لگایا گیا لیکن مختلف اسسمنٹ کے مطابق بارشوں نے 8 تا 12 فیصد تک گندم کی فصل کو متاثر کیا ہے۔
کون سا صوبہ زیادہ متاثر ہوا؟
بشیر احمد نے کہا کہ بارشوں کی وجہ سے بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے لیکن اگر گندم کے حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ پنجاب ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں گندم کی کٹائی جلدی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہاں پر فصل زیادہ متاثر نہیں ہوئی جبکہ خیبر پختونخوا بارشوں سے بہت متاثر ہوا ہے لیکن اس کے گندم والے علاقے اتنے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔
بشیر احمد نے کہا کہ ملکی معیشت میں زراعت کا شعبہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور جب جب زراعت میں بہتری آئی ہے تو اس سے ہماری معیشت بھی بہتر ہوئی ہے اور جب زراعت کا شعبہ متاثر ہوا ہے تو اس کا ہماری معیشت پر بھی برااثر پڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہماری دھان کی فصل ( چاول) بہتر ہوئی تھی جس سے ہمیں ایک ارب ڈالرکا زرمبادلہ حاصل ہوا تھا۔
ماحولیاتی تغیرات اور نئی ٹیکنالوجیز
ماحولیاتی تغیرات کے باعث پیدا ہونے والے حالات ہمیں نئی اختراہوں کے استعمال کی جانب مائل کرتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجیز کو نہ صرف اپنانا بہت ضروری بلکہ اس سلسلے میں ریسرچ اور انوویشن کے جانب پیش رفت پر بھرپور توجہ دینا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اس سلسلے میں جب سوال کیا گیا تو ڈاکٹر بشیر احمد نے کہا کہ زراعت پر ماحولیاتی تغیرات کے حوالے سے ہمارا ادارہ کام کر رہا ہے، ہم نے نئی ٹیکنالوجیز کے حوالے سے مختلف تجربات کیے ہیں جس میں رسپونسو ڈرپ ایریگیشن ہے جو امریکی ٹیکنالوجی یا سسٹم ہے اس کو پودوں کی جڑوں میں بچھایا جاتا ہے جس سے 80 فیصد پانی کی بچت کے ساتھ پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلیاں تباہی پھیلانے لگیں، ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنا ناگزیر
اس کے علاوہ چین کی نیونو ٹیکنالوجی بھی استعمال کی جارہی ہے اس کو بھی پودوں کی جڑوں کے نیچے بچھایا جاتا ہے یہ بھی پانی کی بچت اور پیداوار میں اضافے کے لیے مفید ہے۔ ان ٹیکنالوجی کو بلوچستان کے علاقوں، تھر، چولستان میں استعمال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسانوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ان ٹیکنالوجیز کو استعمال کریں، اس کے علاوہ ہم نے دھان کی دو ایسی قسمیں متعارف کروائی ہیں جو کم پانی لیتی ہیں۔