چین میں تیار ہونے والی صرف ایک دوا نے دُنیا بھر میں گدھوں کی آبادی کو خطرات سے دو چار کر دیا ہے، چین میں گدھے کی کھال کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے ہر سال دُنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں گدھے ذبح کر دیے جاتے ہیں۔
چین میں گدھے کی کھال کی مانگ اچانک اس قدر بڑھ گئی کہ چین میں گدھوں کی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ تعداد اچانک سکڑ کر 20 لاکھ تک پہنچ گئی جبکہ اس کے علاوہ چین گزشتہ کئی سالوں سے افریقا، پاکستان سمیت دُنیا کے کئی دیگر ممالک سے گدھے یا گدھے کی کھال درآمد بھی کر رہا ہے، کنٹرول سے باہر اس تجارت نے اب بیجنگ کے لیے جغرافیائی سیاسی مسائل بھی کھڑے کر دیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہرسال قریباً 60 لاکھ گدھے کس دوا کے لیے ذبح کیے جاتے ہیں؟
چین کی فوڈ ڈلیوری ایپ میٹوان فار ایجیاؤ پر تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ چین میں گدھے کی کھال سے کولیجن اکٹھا کر کے اس سے ایک ایسی خاص دوا ’ایجیاؤ‘ تیار کی جاتی ہے جو کبھی شہنشاہوں کے دربار میں عیش و عشرت کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔
’ایجیاؤ‘ کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کے استعمال سے خون میں اضافہ ہوتا ہے، نیند بہتر اور پرسکون آتی ہے، عمر میں اضافہ اور مدافعتی نظام بہتر ہوتا ہے اور اسے بطور بیوٹی پراڈکٹس بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
چین میں شہنشاہوں کے دور سے استعمال ہونے والی ’ایجیاؤ‘ کو ایک ٹانک کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، جو چین میں انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔ اس دوا میں استعمال ہونے والا کولیجن مادہ گدھے کی کھالوں سے نکالا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:کھیت میں گھسنے پر زمیندار نے کلہاڑی سے گدھے کو زخمی کردیا
کولیجن حاصل کرنے کے لیے چین میں گدھوں کی مقامی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے اور اب یہ تیزی سے افریقی ممالک کو بھی گدھوں سے محروم کر رہا ہے۔
چین اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب نائجیریا، ایتھوپیا اور بوٹسوانا جیسے دور دراز ممالک، جہاں گدھوں کو مال برداری، کھیتوں میں جوتائی، فصلوں کو بازار تک پہنچانے اور بہت سے دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، سے درآمد کر رہا ہے۔
یہ معاملہ افریقہ کی دیہی معیشت کے لیے اس قدر نقصان دہ ہو چکا ہے کہ فروری میں 55 رکنی افریقی یونین نے اپنے سربراہان مملکت کے اجلاس میں گدھوں کو ان کی کھالوں کے لیے ذبح کرنے پر براعظم بھر میں پابندی عائد کرنے کی منظوری دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:جانوروں پر تشدد: پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے لیے کیا قوانین ہیں؟
اب اگر افریقہ کی حکومتیں اس طرح کی پابندی پر عمل درآمد کرتی ہیں تو پھر چین میں ’ایجیاؤ‘ صنعت کو بڑا دھچکا لگنے والا ہے۔
روایتی طور پر ای جیاؤ ایک انتہائی مہنگی پراڈکٹ ہے۔ یہ چین میں ژنگ خاندان کے دورِ بادشاہت میں 1644 سے 1912 تک چینی اشرافیہ میں بہت مقبول رہی ہے۔ دور جدید میں ایجیاؤ کو اس وقت مقبولیت حاصل ہوئی جب 2011 میں چین کی ایک ٹیلی ویژن سیریز ’ایمپریس ان دی پیلس‘ میں استعمال کیا گیا۔
اس سیریز کی وجہ سے چین کے متوسط طبقے اور عمر رسیدہ افراد میں اس پراڈکٹ کی مانگ تیزی سے بڑھی۔ طلب میں اضافے کی وجہ سے ایجیاؤ کی قیمتوں میں 30 گنا اضافہ ہوا اور چین کے ریاستی میڈیا کے مطابق اس کی قیمت 420 ڈالر فی گرام تک پہنچ گئی۔
رواں برس فروری میں حیوانات کے لیے کام کرنے والے برطانوی ادارے ’ڈنکی سینکچری‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایجیاؤ صنعت کو اندازاً سالانہ 59 لاکھ گدھے کی کھالیں درکار ہوتی ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر گدھوں کی نسل شدید خطرات سے دو چار ہو گئی ہے۔
ای جیاؤ کی صنعت کی وجہ سے چین میں گدھوں کی آبادی میں 80 فی صد کمی آ چکی ہے۔ 1992 میں چین میں ایک کروڑ 10 لاکھ گدھے تھے جو اب محض 20 لاکھ رہ گئے ہیں۔ اسی لیے ای جیاؤ کی صںعت کو اپنی کھپت پوری کرنے کے لیے بیرونِ ملک سے کھالیں منگوانا پڑتی ہیں۔
دیگر مویشیوں کے مقابلے میں گدھی کے حمل کی مدت 11 سے ساڑھے 14 ماہ ہوتی ہے اور اکثر ایک حمل سے صرف ایک بچہ ہی پیدا ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں گدھوں کی کھال کی سالانہ 59 لاکھ کی کھپت پوری کرنے کے لیے اگر فارمنگ کی جائے تو اس کے لیے کم از کم دو دہائیاں درکار ہوں گی۔