پاکستان میں ہر تھوڑے عرصے بعد جانوروں کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں اور حال ہی میں ہونے والے اونٹنی کے دلخراش واقعے نے تو سب ہی کو غمگین کردیا ہے تاہم تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جانوروں کے ساتھ اس طرح کے واقعات معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
سندھ میں صرف ایک وڈیرے کی جانب سے اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے والا واقعہ ہی تکلیف دہ نہیں ہے بلکہ اسلام آباد کے قریب روات کے علاقے میں بھی ایک بااثر شخص نے کھیت میں داخل ہونے پر ایک گدھی کے دونوں کان کاٹ دیے، اس کے علاوہ آزاد کشمیر کی جہلم ویلی میں بھی 3 روز قبل تیندوے کے 2 بچوں کو ہلاک کردیا گیا۔
یاد رہے کہ انہی دنوں حیدرآباد میں بھی ایک گدھے کو بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی ٹانگ توڑ دی گئی تھی۔
یہ تمام وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ یقیناً پاکستان میں جانوروں کے خلاف بدترین سلوک کے ایسے بے شمار واقعات پیش آتے رہتے ہوں گے جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
کیا پاکستان میں جانوروں سے متعلق کوئی قوانین نہیں ہیں؟ یا پھر ان قوانین کے تحت سزائیں نہیں دی جاتیں؟
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل شاہ رخ خان نے اس بارے میں بتایا کہ پاکستان میں کہیں بھی جانوروں کو حقوق نہیں دیے جاتے اور آئے روز اس طرح کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقعات پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ جس معاشرے میں جانوروں پر ظلم اور تشدد ہوتا ہو وہاں آگے چل کر انسانوں کو بھی اسی طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ نہ ہی حکومت اس پر دھیان دیتی ہے اور نہ ہی جانوروں کے لیے خاص فنڈز رکھے جاتے ہیں اور نہ ہی پاکستان میں ان کی ویکسینیشن کا کوئی باقائدہ نظام ہے۔
ملک میں جانوروں پر ظلم اور تشدد کے بارے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ حقوق جانوروں کو اسی صورت میں مل سکتے ہیں جب ملک میں اس حوالے سے قوانین موجود ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی پاکستان میں سنہ 1890 کا قانون رائج ہے جس کی آج کے دور کے لحاظ سے کوئی اہمیت نہیں ہے اس میں 200 روپے جرمانہ ہے جو آج کے دور کے حساب سے کچھ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس قانون پر نظر ثانی کرے اور آج کے دور کے لحاظ سے اس میں ترمیم کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے اینیمل ریکسیو سیل اسلام آباد اور لاہور میں بنوائے، یہ سیل پاکستان کے تمام اضلاع میں بنائے جانے چاہییں تاکہ جانوروں کو تحٖفظ فراہم کیا جا سکے اور پاکستان میں غیر پیشہ ورانہ ویٹرنری پریکٹس کا بائیکاٹ کیا جائے۔
اس حوالے سے جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے یائیر سلمان کہتے ہیں کہ ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ جانوروں پر ظلم اور تشدد کے 4 واقعات حکومت کی جانب سے خود فائل کیے گئے ہیں جو ایک بڑی کامیابی ہے اور اس سے باقی جانوروں کو بھی تحفظ حاصل ہوگا۔
یائیر سلمان نے کہا کہ پاکستان میں جانوروں کے حقوق تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے جانوروں کے حقوق سے متعلق ایسے پلیٹ فارمز کی ضرورت ہے جو واقعی جانوروں پر ہونے والے ظلم اور تشدد کے خلاف آواز اٹھا سکیں اور جہاں کسی جانور کے ساتھ ظلم ہوتا دیکھیں اسے فوراً نہ صرف ظلم سے بچائیں بلکہ اس ظالم کو بھی بے نقاب کریں۔
’قوانین کی تجدید ضروری ہے‘
یائیر سلمان نے پاکستان میں جانوروں کے قوانین کے حوالے سے کہا کہ پاکستان میں اب تک برٹش لاز چل رہے ہیں لہٰذا اب ان قوانین کی تجدید ہونی چاہیے کیونکہ اس وقت تو جو جانوروں پر ظلم کرتا اس پر 200 روپے فائن ہوتا تھا اور تب اس رقم کی ایک حیثیت بھی ہوتی تھی جو آج کے دور میں کچھ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں اب اس پر کم از کم 50 ہزار روپے جرمانے اور 6 ماہ کی قید کی سزا ملنی چاہیے‘۔
لوگ جانوروں پر تشدد کیوں کرتے ہیں؟
اس حوالے سے ماہر نفسیات سہرش افتخار کہتی ہیں کہ جانوروں پر تشدد کرنے والے افراد وہی ہوتے ہیں جو خود پرست ہوتے ہیں اور جنہیں اپنی ذات اور اپنی چیزوں سے زیادہ عزیز کچھ نہیں ہوتا یا ان میں زیادہ تر وہ افراد بھی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں تشدد کا بہت زیادہ سامنا کیا ہو یا پھر تشدد ہوتے دیکھا ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے افراد کے نزدیک انسان پر تشدد کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی تو جانور تو بہت چھوٹی چیز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تشدد کا تعلق نفسیات سے ہے پھر خواہ وہ انسانوں پر کیا جائے یا جانوروں پر۔