آن لائن بک شاپس اور سوشل گروپس معروف بنگلہ دیشی ادیب کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور کیوں ہوئے؟

جمعرات 18 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بنگلہ دیش میں متعدد آن لائن بک شاپس اور کتابوں سے متعلقہ فیس بک گروپس نے ملک کے معروف ادیب ڈاکٹر محمد ظفر اور ان کے ادبی کاموں اور کتابوں کا مکمل بائیکاٹ کردیا ہے۔

بنگلہ دیشی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ڈاکٹر ظفر اقبال نے اپنے ایک متنازعہ بیان میں ملک میں جاری کوٹہ اصلاحاتی مہم کے تحت مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو ’رضاکار‘ کہہ کر ان کی تذلیل کی تھی جس کی وجہ سے ان کا بائیکاٹ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ہائی کمیشن کا بنگلہ دیش میں پاکستانی طلبہ کو اپنے کمروں سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ

16 جولائی کو بنگلہ دیش میں ہاتھ سے لکھا گیا ایک بیان بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا۔ یہ بیان ڈاکٹر ظفر اقبال نے تحریر کیا تھا۔

’میں کسی رضاکار کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا‘

اپنے تحریری بیان میں انہوں نے کہا، ’ڈھاکہ یونیورسٹی میری پیاری یونیورسٹی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں دوبارہ اس یونیورسٹی میں کبھی نہیں جانا چاہوں گا کیونکہ جب بھی طلبہ کو دیکھوں گا تو سوچوں گا کہ شاید یہ ’رضاکار‘ ہیں، جب تک میں زندہ ہوں کسی رضاکار کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا، ہمیں ایک زندگی ملی ہے تو میں کیوں اس زندگی میں دوبارہ رضاکاروں کو دیکھوں۔‘

ان کا یہ بیان دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا جس پر بنگلہ دیشی انٹرنیٹ صارفین اور احتجاج کرنے والے طلبہ نے اظہار مایوسی کیا۔ علاوہ ازیں متعدد آن لائن بک شاپس اور فیس بک گروپس نے ڈاکٹر ظفر اقبال اور ان کی کتابوں کا بائیکاٹ کردیا۔

ڈاکٹر ظفر اقبال کی 230 سے زائد کتابیں ڈیلیٹ

ڈاکٹر ظفر اقبال فیس بک پر ایسے کئی بڑے ادبی گروپس کا حصہ تھے جن کے ممبران کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ ان تمام گروپس نے ڈاکٹر ظفر اقبال کے بیان کے خلاف اعلان کیا کہ وہ اب ان کی کتابوں اور ان کے ادبی کاموں کو فروغ نہیں دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش مظاہرے، پاکستانی ہائی کمیشن کی پاکستانی طلبا سے ملاقات

اسی طرح متعدد آن لائن بک شاپس نے بھی اعلان کیا کہ وہ اب ڈاکٹر ظفر اقبال کی کتابیں فروخت نہیں کریں گے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کی سب سے بڑی آن لائن بک شاپ نے اپنے ریکارڈ سے ڈاکٹر ظفر اقبال کی 230 سے زائد کتابیں ڈیلیٹ کردیں۔

رضاکار کہنے پر اتنا ہنگامہ کیوں؟

واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں یونیورسٹی کے طلبہ گزشتہ کئی روز سے سرکاری نوکریوں میں مخصوص کوٹہ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان طلبہ کا مطالبہ ہے کہ 1971ء میں پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کی اولادوں  کے لیے مختص کوٹہ ختم کیا جائے اور سرکاری نوکریاں صرف میرٹ پر دی جائیں۔

قوانین کے مطابق بنگلہ دیش میں سرکاری نوکریوں میں خواتین، اقلیتوں اور معذوروں کے لیے کوٹہ مختص کیا جاتا ہے جس میں سے ایک تہائی ان افراد کے اہلخانہ کو دیا جاتا ہے جنہیں بنگلہ دیش میں ’جنگ آزادی کا ہیرو‘ قرار دیا جاتا ہے۔

سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج 2 روز پہلے پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اس دوران 2 طلبہ گروپوں میں تصادم کے نتیجے میں 6 طلبہ ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔

اس سے قبل طلبہ نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے اس بیان پر سخت مایوسی ہوئی تھی جس میں انہوں نے کوٹہ نظام کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کو 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والے ’رضاکاروں‘ سے تشبیہ دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان سانحہ 1971 کو کیوں یاد کر رہے ہیں؟

’رضاکار‘ اردو زبان کا لفظ ہے جسے بنگلہ دیش میں عموماً  ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جنہوں نے 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔

طلبہ کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کے بیان نے ان کی جماعت عوامی لیگ کے کارکنوں کو احتجاج کرنے والے طلبہ سے جھگڑے پر اکسایا جس کی وجہ سے طلبہ میں تصادم ہوا۔ تاہم حکومتی ترجمانوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے بیان کا غلط مطلب لیا گیا، انہوں نے طلبہ کو ’رضاکار‘ نہیں کہا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp