لاہور ہائیکورٹ نے بغاوت کے قانون کے سیکشن 124اے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے مذکورہ سیکشن کو کالعدم قرار دیدیا ہے۔
درخواست گزار ہارون فاروق کی جانب سے بغاوت کے قانون کے سیکشن 124اے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سنایا ہے۔
دوران سماعت درخواست گزار ہارون فاروق کے وکلا ابوذر سلمان نیازی اور بیرسٹر داراب نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ بغاوت کاقانون انگریز دور کی نشانی ہے جو غلاموں کےلئے استعمال کیاجاتا تھا۔ضابطہ فوجداری کی شق 124 اے، بنیادی حقوق سے متصادم ہیں۔
’آئین کےآرٹیکل 19اے کےتحت آزادی اظہار رائے پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔‘
درخواست گزار کے مطابق اس ضمن میں وفاق کا موقف تھا کہ آرٹیکل 19اے کےتحت آزادی اظہار رائے قانون کےتابع ہے۔کسی کو ماورائے قانون اور شتر بےمہار آزادی اظہار رائےحاصل نہیں۔ بغاوت کے قانون کو سیاسی مفادات کےلئے استعمال کرکے شہریوں کااستحصال کیاجارہا ہے۔
’انڈین سپریم کورٹ نے بھی بغاوت کے قانون پر عمل درآمد روکتے ہوئے اسے انگریز دور کی پیداوار قراردیا اور بغاوت کےمقدمے اور ٹرائل روک دیے ہیں۔‘
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ انگریز دور کےبغاوت کےقانون کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جائے۔ آئین کےتحت شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرکے انہیں ریاستی جبر کانشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔