میرا شہر سمبڑیال

اتوار 21 جولائی 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برادرم آفتاب اقبال نے اپنے پروگرام خبر ہا ر کے ایک سلسلے “ابنِ بطوطہ” میں سمبڑیال کا تعارف پیش کیا۔ انھوں نے میرا بھی بہت محبت سے تذکرہ کیا جس کے لیے میں آفتاب صاحب اور ان کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ شکیل چوہدری صاحب کا شکر گزار ہوں۔ یقینا ً متذکرہ پروگرام کے اس مختصر سلسلے میں تفصیل سے سمبڑیال کے حوالے سے سب پہلوؤں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ شاید میں بھی بہت سی تفصیلا ت کاذکر نہ کر پاؤں۔

تقریباً سوا لاکھ کی آبادی پر مشتمل یہ ضلع سیالکوٹ کا بڑا قصبہ ہے جسے آپ شہر بھی کہہ سکتے ہیں۔ ویسے پاکستان کے شہروں کی درجہ بندی میں سمبڑیال کا نمبر 90 ہے۔

اکثر شہر اور قصبے اونچی جگہوں، ٹیلوں یا پرانے شہروں کے ملبے پر آباد ہوتے تھے۔ پرانا سمبڑیال قصبہ بھی ٹیلے پر آباد ہے۔ سمبڑیال سے چند کلو میٹر دور دریائے چناب صدیوں سے رواں دواں ہے۔ دریا کی دوسری طرف سوہنی کاضلع گجرات ہے۔ سمبڑیال کے متوازی گجرات کا مشہور قصبہ جلا ل پور جٹاں واقع ہے۔ ایک زمانے پر کشتی کے ذریعے لوگ آر پار آتے جاتے۔ رشتہ دارایاں بھی چلتیں اور تجارت بھی۔ چور مویشی چوری کرکے بھی آر پار لے جاتے۔ دریا کی دونوں طرف بیلے کی اپنی بہت سی کہانیاں ہیں۔ بیلے اکثر بدمعاشوں کی پناہ گاہ بنتے۔

سمبڑیال کے مغرب میں وزیر آباد اور مشرق میں سیالکوٹ، جنوب میں ڈسکہ کے تاریخی شہر واقع ہیں، بارش کے بعد جب مطلع صاف ہو تو دن میں ہمالیہ کے برف پوش پہاڑ اور صاف راتوں میں جموں کی بتیاں نظر آتیں ہیں۔ تقسیم سے قبل سیالکوٹ اور نواح کے لوگوں کی لاہور سے زیادہ جموں آمدو رفت تھی۔

دریائے چناب میں ہیڈ مرالہ کے پاس مزید چھوٹے نالے یا دریا شامل ہو جاتے ہیں، جن میں توّی اور منادر مشہور ہیں۔

مرالہ کے مقام سے ہی دو نہریں، اپر اور لوئر چناب نکلتی ہیں۔ دونوں نہریں سمبڑیال کے مشرق کی طرف سے گزرتی ہیں۔ دریا جتنی بڑی نہر اپر چناب تو تقریباً سارا سال سمبڑیال کے سرہانے بہتی رہتی ہے۔

یہ وہی نہر ہے جس کا پانی لاہور کے بیچوں بیچ گزرتا ہے۔ بمباں والا سے نکل کر یہ بی آر بی(بمباںوالی راوی بیدیاں کینال) نہر میں بدل جاتی ہے اور پھر گنگن پور قصور کے مقام پر سُتلج سے جا ملتی ہے۔

2005ء تک سمبڑیال تحصیل ڈسکہ کا حصہ تھا۔ اس زمانے میں پرویز الہی وزیر ِ اعلیٰ پنجاب تھے۔ سمبڑیال سے عظیم نوری گھمن ایم پی اے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ تھے جب کہ ان کے برادرِ اکبر بریگیڈئر (ر ) اسلم گھمن انٹی کرپشن پنجاب کے پہلے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ اس سے پہلے محکمہ اینٹی کرپشن کا انچارج ڈائریکٹر ہوا کرتا تھا۔ سمبڑیال تحصیل دراصل ان دونوں بھائیوں کی کاوشوں سے ہی بنی۔ پرویز الہی کے دورِ حکومت میں دونوں بھائی پنجاب حکومت میں بہت طاقت ور تصور ہوتے تھے۔ 2003 ء میں جب الیکشن ہوئے تو بریگیڈئر اسلم گھمن فوج کے انتہائی حساس شُعبے کے پنجاب بھر میں سربراہ تھے۔ لہذا فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ڈی جی اینٹی کرپشن بننے کے طور پر ان کے اثر رسوخ کا معاملہ ویسے ہی چلتا رہا۔ حالیہ انتخابا ت میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت سے وہ سمبڑیال سے ایم این اے منتخب ہوئے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سابقہ دورِ حکومت میں بریگیڈئر (ر) اسلم گھمن کی کوششوں سے 400 ایکڑز پر محیط یونیورسٹی آف اپلائیڈ انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ سائنسز منظور ہوئی۔ یہ یونیورسٹی 70فی صد تعمیر ہوچکی ہے۔ یونیورسٹی سے ملحق 50ایکڑ پر ایکسپو سنٹر اور 25 ایکڑ پر سپورٹس کمپلیکس تعمیر ہوگا۔ یاد رہے کہ 2005 ء میں سویڈن کے تعاون سے ٹیکنالوجی یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے 500 ایکڑ زمین حاصل کی گئی تھی۔ بعد ازاں یہ منصوبہ سیاست کی نذر ہوگیا اور پھر یہ یونیورسٹی انڈیا میں بنی۔

سمبڑیال سے ہی تعلق رکھنے والے ارشد وڑائچ مسلسل اسی علاقے سےایم پی اے بنتے چلے آرہے ہیں۔ لوک روایت کے مطابق سمبڑیال بنیادی طور پر گھمن برادری کا آباد کیا ہوا قصبہ ہے۔ پاکستان بننے سے قبل سکھ اور ہندو برادی بھی کافی تعداد میں یہاں آباد تھی۔ سکھ برادری کی اکثریت بھی جٹ گھمن ہی تھی۔ جب کہ آزادی کے بعد مئیو، راجپوت اور شیخ برادری بھی بڑی تعداد میں سمبڑیال کا حصہ بنی۔ قصبے کی حد تک راجپوت اورشیخ برادریاں بڑی تعدا د میں آباد ہیں۔ ویسے تو چیمہ، وڑائچ، آرائیں، کشمیری اور مغل اورمسیحی برادری بھی کافی تعداد میں آباد ہے۔

1932ء  کے لگ بھگ جب نہر چناب اپر کنال نکلی تو ارد گرد کے  علاقے سیم تھور کا شکار ہوگئے اور زمین دارہ بری طرح متاثر ہوا نتیجتاً زمین داروں کو بورے والا اور سرگودھا میں مربعے الاٹ ہوئے۔ بورے والا میں ہمارا اپنا ایک پورا گاؤں 83 چک کے نام سے آباد ہے ۔ وہاں کے ڈاکٹر علی اکبر گھمن خدمتِ خلق کے حوالے سے بڑا نام ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی کافی لوگ  مجبوراً بھارت چلے گئے جیسی مجبوری میں وہاں سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر آئے۔

سمبڑیال کے دو حصے ہیں پرانا یا قلعہ جب کہ دوسرا منڈی کا علاقہ ہے۔ سمبڑیال چاول اور گندم کی بڑی منڈی ہے۔ منڈی میں سرکاری گودام، چاول کے کار خانے اور آڑھت کی دوکانیں بھی ہیں۔ پرانے او ر نئے کے نام سے دو بازار ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بازار میں زیادہ تر دوکانیں اور کاروبار ہندو کھتریوں کا تھا۔ تقسیم کے بعد شیخ برادری مشرقی پنجاب سے سمبڑیال آئی اور ہندوؤں کی جگہ کارو بار سنبھال لیا۔ آہستہ آہستہ دوسری برادریوں کے لوگ بھی کافی تعداد میں کاروبار کی طرف آچکے ہیں۔

سمبڑیال میں نذیر جنجوعہ صاحب اور شفقت چیمہ صاحب نے پہلا انٹر کالج قائم کیا جو بعد ازاں بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں قومیا لیا گیا۔ آج کل سمبڑیال میں لڑکیوں اور لڑکوں کے سرکاری ڈگری کالجز کے علاوہ کئی نجی تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ لڑکیوں کے کالج کے لیے راجپوت برادری کے چوہدری جنگ شیر نے شہری علاقے میں ایک ایکڑ زمین عطیہ کی۔ چوہدری جنگ شیر بلدیہ سمبڑیال کے کئی دفعہ چیئر مین رہ چُکے ہیں۔ ان کے والد رانا شیر محمد بھی بلدیہ کے چیئر مین رہے۔ جنگ شیر سمبڑیال کے بڑے زمین دار ہیں۔

سمبڑیال شہر کی نامور شخصیا ت کا تذکرہ کیا جائے تو ڈاکٹر رفیق شیخ، ڈاکٹر امین ملک علیگ اور پیر ناظر شاہ تک ایک طویل لسٹ ہے۔ ہو سکتا ہے تاریخ میں یہاں کے کچھ لوگ بہت نامور رہے ہوں۔ جن کو حالیہ زمانے میں زیادہ لوگ جانتے ہیں ان میں چوہدری اعظم جو بھٹو کے دور میں ایم پی اے تھے۔ چوہدری نواز، بی اے امین، حافظ عالم گُجر، چھوٹے چوہدری اعظم (والد بریگیڈئر اسلم گھمن)، رانا باؤ ادریس، سعید میو، رانا حنیف، افضل شاہین، چوہدری مالک گھمن سمیت بہت سی نامور شخصیات ہیں۔

سمبڑیال کا ایک اور افسانوی کردار چوہدری نواز گھمن کا بیٹا گولڈی تھا۔ جسے آج بھی ایک ایسے فرد کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو طاقتوروں کے خلاف عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہو جاتا تھا۔ کچھ لوگ اسے ناپسند بھی کرتے ہوں گے مگر عام لوگ آج بھی ہیرو کے طور یاد کرتے ہیں۔ وہ واقعی ایک فلمی کردار تھا۔ گولڈی پر بہت جان دار فلم بنائی یا کہانی لکھی جا سکتی ہے۔

تحصیل سمبڑیال کی بات کی جائے تو اس کی آبادی تقریباً پونے پانچ لاکھ کے قریب ہے جو زیادہ تر دیہاتوں میں آباد ہے۔ تحصیل سمبڑیال میں گھمن برادری کے بعد سب سے بڑی برادری چیمہ ہے۔ روایت کے مطابق گھمن برادری کی نسل روڑس، ماجرہ یا سمبڑیال سے شروع ہوئی۔

اسی طرح چیمہ برادری کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی نسل ساہو والہ سے شروع ہوئی۔ اتفاق سے جٹ برادری کی دو بڑی شاخیں گھمن اور چیمہ کا آغاز جن قصبات سے جوڑا جاتا ہے وہ سب سمبڑیال تحصیل میں ہی ہیں۔ سمبڑیال تحصیل کے بڑے اور معروف قصبات میں، جیٹھی کے، ماجرہ، ساہو والہ، بھوپال والہ، دھاناں والی، بدو کے چیمہ، ملکھانوالا کا نام لیا جا سکتا ہے۔ روڑس ہندوں کے مذہبی کردار پورن بھگت اور راجہ روڈ اور رانی سندراں کی وجہ سے تاریخی اہمیت کا حامل قصبہ ہے۔ مع الجبن طریقہِ علاج کے حوالے سے یہاں کے حکیم بہت معروف ہیں۔

کوٹلی نوناں آبادی اور حجم کے لحاظ سے تو چھوٹا گاؤں ہے مگر یہ کئی لحاظ سے یہ بہت معروف موضع ہے۔ سابق چیئر مین واپڈا اور کرکٹ بورڈ خالد  محمود اور ٹیسٹ کرکٹر وقار یونس کی بہنوں کی یہاں شادیاں ہوئی۔  میجر نثار گھمن مشرف کی نگران حکومت میں وفاقی وزیر رہے۔ ان کا بیٹے عمر احمد گھمن   ایم این بنے اورشوکت عزیز کابینہ  میں سرمایہ کاری کے  امور مملکت اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئر مین رہے۔ میجر نثار کے چھوٹے بھائی اسرار گھمن لیفٹیننٹ جنرل کے طور ریٹائرڈ ہوئے۔

ان سے چھوٹے کرنل سلطان سکندر گھمن آرمی ایوی ایشن میں پائلٹ رہے۔ وہ اپنے وقت میں ہاکی کے نامور کھلاڑی تھے۔ کرنل صاحب سیاست میں بھی  کافی عرصہ متحرک رہے۔ ایم این اے اور ضلع کونسل کے چیئر مین کے الیکشن بھی لڑے  اور کو ٹلی نوناں میں کیڈٹ کالج بھی قائم کیا۔

بڑی برادریوں میں گھمن، چیمہ، راج پوت، ککے زئی، آرائیں، گُجر، شیخ، مغل اور کشمیری برادری کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ساہی، نارو یا دیگر جٹ برادیاں کم تعدا میں موجود ہیں امریک پورہ اور بھوپال والا میں ہندو برادری کے کچھ خاندان آباد ہیں۔ امریک پورہ کے منشی رام کئی دفعہ اقلیتی سیٹ پر ضلع کونسل کے ممبر رہے ہیں۔

سمبڑیال میں جاگیر داری کا کوئی تصور نہیں۔ لوگ محنت کش اور عمومی طور پر محبت کرنے والے ہیں۔

تحصیل سمبڑیال کی معروف شخصیات میں بھوپال والا کے حافظ صابر صاحب، معروف صحافی زاہد ملک، خاور گھمن، کرکٹر محمد عباس اور مختار احمد، سابق آئی جی پنجاب نثار چیمہ، جنرل رفاقت شاہ جیسے نامور لوگ شامل ہیں۔

جب کہ علمی ادبی شخصیات میں، منظور کاسف، ن م جاوید، اور ارشد جمیل ساجد شامل ہیں۔

رُستمِ سیالکوٹ سعید جٹ بھی پہلوانوں میں ایک معروف نام ہے۔ میرا چچا زاد یہ نوجوان پچھلے دنوں دبئی میں کُشتی کا ایک بڑا مقابلہ انڈیا  کے سنگرام سنگھ سے کر کے آیا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں اس مقابلے کی زیادہ چرچا نہیں ہوئی  جب کہ انڈین “زی ٹی وی” نے یہ مقابلہ لائیو دکھایا۔

مشرقی پنجاب کے بڑے شہروں میں اس مقابلے سے پہلے بڑے بڑے ہورڈنگز آویزاں ہو چُکے تھے۔ دوبئی میں جب یہ مقابلہ ہوا تو سنیل سیٹھی سمیت بڑے بڑے سیلبرٹی یہ مقابلہ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔امکان ہے کہ آئندہ سعید جٹ کُشتی کے بڑے مقابلے لڑنے کے لئیے امریکہ اور آسٹریلیا جائے گا۔

سمبڑیال کا مڈل اسکول قیام پاکستان سے پہلے کا قائم شدہ ہے جہاں معروف شاعر جاوید شاہین بھی کسی زمانے میں زیرِ تعلیم رہے۔ سمبڑیال کے 2 اور منفرد اعزازات بھی ہیں۔ جیسے اسی کی دہائی میں ایشیاء کا پہلا ڈرائی پورٹ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت قائم ہوا جو کئی دہائیوں سے کامیابی سے رواں دواں ہے۔ اسی طرح سیالکوٹ کے تاجروں نے سمبڑیال میں اپنی مدد آپ کے تحت سیالکوٹ انٹر نیشنل ائیر پورٹ قائم کیا۔

شہر کے وسط میں قدیمی ریلوے اسٹیشن قائم دائم ہے البتّہ ٹرین کا آنا جانا بڑی حد تک قصہِ ماضی بن چُکا ہے۔ سیالکوٹ لاہور موٹر وے بھی سمبڑیال میں ختم یا شروع ہوتا ہے۔ یہیں سے کھاریاں تک موٹر وے کی تعمیر شروع ہے۔

ایک زمانے میں سمبڑیال کے نواح میں واقع ہمارے گاؤں لوپو والی سے ہمیں دھوئیں والی ریل گاڑی بھی آتی جاتی نظر آتی تھی۔ مگر آج کل آبادی اتنی بڑھ چُکی ہے کہ ایک ڈیڑھ کلو میٹر دور نہر کا پُل اور آتی جاتی ٹریفک بھی نظر نہیں آتی۔

اگر تفصیل سے لکھا جائے تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ کتاب سے یاد آیا بریگیڈئر(ر) اسلم گھمن (ایم این اے) نے بھی سمبڑیال کے حوالے ایک کتابچہ لکھ رکھا ہے۔ اردو کے نامور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا تعلق بھی بنیادی طور پر ڈسکہ سے تھا اس لیے ان کے معروف ناولٹ “اک چادر میلی سی” کا ،لوکیل بھی ڈسکہ، سیال کوٹ، سمبڑیال اور یہاں کے گاؤں دیہات ہی ہیں۔

انشااللہ پھر کبھی زیادہ جُزیات کو مدِ نظر رکھ کر لکھنے کی کوشش کروں گا یا ہو سکتا ہے کوئی اور نوجوان سمبڑیال پر کتاب ہی لکھ ڈالے۔ میرا اپنا تعلق بھی چوں کہ سمبڑیال سے ہی ہے۔ پوری کوشش کی ہی کہ بغیر کسی تعصب کے لکھ سکوں۔

جب انسان اپنے شہر، دیہات سے نکل کر کسی اور جگہ جا کر ڈیرہ جماتا ہے تو اس کے لیے اپنے علاقے کے سب لوگ برابر ہوجاتے ہیں، کیا اپنا کیا پرایا۔ پھر بھی کسی کمی کوتاہی کی شکل میں معافی کا خواست گار ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp