حکومت کی مشکلات کیوں بڑھ رہی ہیں؟

ہفتہ 20 جولائی 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عمران خان کے دور میں کسی نے لکھا یہ کمپنی نہیں چلے گی۔ انہیں بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ بھلا ایک صفحے کی حکومت کیسے جا سکتی ہے۔ جو سہولت عمران خان کو دستیاب تھی وہ تو شاید تاریخ میں کسی کو نہیں ملی۔ مزید یہ کہ منصوبہ تو بتایا گیا 20 سال تک عمران خان ہی اقتدار میں رہیں گے مگر یہ ہونہ سکا۔ اسی طرح فوجی آمر ضیاالحق نے محمد خان جونیجو کو وزارت عظمیٰ عطا کی اور سب کا خیال تھا کہ جونیجو جیسے ‘شریف اور سادہ’ آدمی سے ضیاالحق کو کیا مسئلہ درپیش آ سکتا ہے۔ مگر کمپنی نہ چل سکی اور جونیجو کو گھر بھیج دیا گیا۔

ملک میں ماضی کے واقعات بتاتے ہیں کہ ہمارے کسی معاملے میں استحکام ہو یا نہ ہو مگر ہم حکومتیں گرانے اور وزرائے اعظم کو فارغ کرنے میں بہت مستقل مزاج ہیں۔ اسی لیے تو ہر حکومت بنتے ہی تجزیہ کار اور سیاستدان بڑے اعتماد سے پیش گوئیاں شروع کردیتے ہیں کہ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ ان کی ایسی سب خبریں اور تجزیے جلد یا بدیر سچ ثابت ہو جاتے ہیں۔ عوام بھی ایسی خبروں اور تجزیوں کو بڑے غور سے سنتے ہیں اور حکومت کے جانے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔

اس حکومت کے ساتھ بھی یہی کام ہو رہا ہے۔ سیاسی نجومیوں نے حکومت بنتے ہی کچھ عرصے بعد کہنا شروع کر دیا کہ یہ حکومت زیادہ دیر تک نہیں چل پائے گی۔ کچھ آوازیں تو ایسے حلقوں سے آنا شروع ہوئیں جو مقتدرہ سے جڑے ہوئے ہیں اور جن کی باتوں کو عوام بڑے غور سے سنتے ہیں کہ پاکستان کے طاقتور حلقے کیا سوچ رہے ہیں۔

مسلم لیگ نواز کے اندر بھی ایسی رائے پائی جاتی ہے کہ پارٹی کو ایسے حالات میں حکومت نہیں لینی چاہیے تھی۔ نواز شریف اور ان کے چند ساتھی خاموش ہیں اور کوئی رائے دینے سے کتراتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے حکومت میں شمولیت کی بجائے تمام اہم آئینی عہدے اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دی تاکہ تمام مشکل فیصلوں کا ملبہ مسلم لیگ نواز پر گرے۔

حالیہ عدالتی فیصلوں نے حکومت کو نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ حکومت اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کر رہی ہے کہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی جائے۔ انہیں امید تھی کہ الیکشن کمیشن شاید سپریم کورٹ کے فیصلے پر مختلف رائے کا اظہار کرے مگر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ سنا دیا  جس کے بعد حکومت کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔

مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے حکومتی حلقوں میں اضطرابی کیفیت پیدا کردی ہے۔ تحریک انصاف پر پابندی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور صدر عارف علوی کے خلاف آرٹیکل 6 لگانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں مگر انہیں اپنے اتحادیوں اور سیاسی تجزیہ کاروں سے حمایت حاصل کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ سیاسی نجومیوں کی پیشگوئیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ مخصوص نشستیں ملنے کے بعد یہ امکانات بڑھ گئے ہیں کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی مل کر اگلی حکومت تشکیل دے سکتی ہیں۔ ایسے میں خواجہ آصف نے ایک پروگرام میں خدشے کا اظہار کردیا کہ اگلے چند ماہ میں ملک آئینی بحران یا بریک ڈاؤن کا شکار ہوسکتا ہے۔ ان کے اس بیان سے افواہوں کو مزید تقویت مل گئی۔

ادھر مریم نواز کہتی ہیں کہ جب بھی ترقی شروع ہوتی ہے تو کسی کو تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اب رخنہ ڈالنے یا عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش ہوئی تو ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ مسلم لیگ نواز کو خدشہ ہے کہ اگرچہ ایسے حالات نہیں مگر جس طرح ماضی میں گٹھ جوڑ ہوتے رہے ہیں اور اب بھی کوئی گٹھ جوڑ ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں آئینی بحران جیسی کیفیت پیدا کی جا سکتی ہے۔

ایک طرف کوششیں ہو رہی ہیں کہ کسی طرح ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرکے بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جائے دوسری طرف ملک کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے بانی چئیرمین عمران خان کسی صورت لچک دکھانے کے موڈ میں نہیں۔ مذاکرات کی شرائط میں کیسسز کا خاتمہ، ان کی رہائی اور الیکشن مینڈیٹ کا مطالبہ شامل ہیں۔ ادھر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی کسی قسم کی رعایت کے اشارے نظر نہیں آرہے ہیں۔

پچھلے چند روز میں ہونے والی سرگرمیوں نے ملک کی سیاست میں ہیجان پیدا کردیا ہے جس کے بعد مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھنے لگے ہیں۔ ادھر دہشت گردی کے بڑھتے واقعات نے بھی حکومت کی معاشی اور سیاسی استحکام کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے اور بے یقینی کی فضا ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp