غزہ میں ان دنوں بے گھر لوگوں کی خیمہ بستیوں سمیت مختلف آباد پر لاپتا بچوں کی تلاش سے متعلق اشتہارات دکھائی دیتے ہیں، یہ وہ بچے ہیں جو ماہ سے اسرائیل، حماس کی جاری جنگ کے دوران اپنے والدین سے بچھڑ گئے ہیں اور ان کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
یہ بھی پڑھیں : غزہ میں لاپتا، گرفتار اور مار ے گئے بچوں کی تعداد 21 ہزار سے متجاوز
لاپتا ہونے والے بچوں میں غزہ کے شہری عبداللہ ابو القمصان کا کمسن بیٹا فواد بھی شامل ہے، فواد اکتوبر 2023 میں شمالی غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیل کی بمباری میں زخمی ہونے کے بعد لاپتا ہو گیا تھا، وہ اس کی تلاش میں روزانہ اشتہارات لے کر اس امید پر جا بجا چسپاں کرتے ہیں کہ شاید کوئی اسے ان تک پہنچا دے۔
یو این نیوز کے مطابق ابو القمصان نے غزہ میں یو این نیوز کے نمائندے زید طالب کو بتایا کہ وہ 31 اکتوبر کو جبالیہ کیمپ میں اپنے رشتہ داروں کے گھر میں موجود تھے جب اسرائیل نے وہاں فضائی حملہ کیا، اس حملے میں ان کے دونوں والدین ہلاک ہو گئے جبکہ فواد نصف گھنٹے تک ملبے تلے دبا رہا یہاں تک کہ امدادی کارکنوں نے ان لوگوں کو وہاں سے نکال لیا۔
یہ بھی پڑھیں : غزہ جنگ کے 9 ماہ، کتنے بچے اور خواتین شہید ہوئیں؟
ابو القمصان بتاتے ہیں کہ ان کا بیٹا ہوش و حواس میں تھا اور انہوں نے اسے سینے سے لگا رکھا تھا، بعدازاں اسے علاج کے لیے کسی طبی مرکز میں لے جایا گیا تاہم وہ اس مرکز کا اتا پتا نہیں جانتے تھے۔
اسپتال کے مردہ خانوں میں فواد کی تلاش
انہوں نے یو این نیوز کے نمائندے کو بتایا کہ چند دن گزرنے کے بعد جب انہیں بیٹے کی کوئی خبر نہ ملی تو انہوں نے اسے اسپتالوں کے مردہ خانوں میں جا کر بھی تلاش کیا۔ اس دوران انہیں الشفا اسپتال کے ریکارڈ میں اپنے بچے سے ملتے جلتے مریض کی تفصیلات معلوم ہوئیں اور انہیں بتایا گیا کہ ایک نامعلوم بچے کو علاج کے لیے وہاں لایا گیا تھا جسے معمولی زخم آئے تھے۔
تاہم، ابو القمصان کو آج تک اپنا بچہ نہیں مل سکا اور انہیں کوئی اندازہ نہیں کہ وہ کس کے پاس ہو گا۔
انہوں نے بیٹے کی تلاش کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا بھی لیا اور آخری چارے کے طور پر اس کی تصویر پر مبنی اشتہار بے گھر لوگوں کے خیموں میں اور سڑکوں پر تقسیم کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 9 ماہ کی تلاش کے دوران انہیں بہت سے ایسے خاندان ملے جن کے بچے بھی فواد کی طرح لاپتا تھے اور ان میں کئی لوگوں کو کہیں زیادہ مشکل حالات کا سامنا تھا۔
’غزہ میں والدین سے بچھڑ جانے والے بچوں کی تعداد کم از کم 17 ہزار ہے‘
یو این نیوز کے مطابق غزہ میں بے گھر لوگوں کی خیمہ بستیوں میں صرف فواد کی تصویر والے اشتہارات ہی دکھائی نہیں دیتے۔ بلکہ یو این نیوز کو بہت سی جگہوں پر اسی جیسے دیگر اشتہار بھی نظر آئے ہیں جن میں ایسے بچوں کی اطلاع دینے کو کہا گیا ہے جو جنگ اور نقل مکانی کے دوران والدین اور سرپرستوں سے بچھڑ چکے ہیں۔
غزہ کے لاپتا بچوں کے حوالے سے وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹ بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں لاپتا بچوں کی اطلاع دینے کو کہا گیا ہوتا ہے۔ ان میں ایسے بچے بھی شامل ہیں جو پناہ گزینوں کی بستیوں میں اپنے خیمے تک پہنچنے کی کوشش میں راستہ بھول جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے اندازے کے مطابق اس وقت غزہ میں بے سہارا یا اپنے والدین سے بچھڑ جانے والے بچوں کی تعداد کم از کم 17 ہزار ہے۔