خواجہ آصف نے یہ کیا کہہ دیا

اتوار 21 جولائی 2024
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کیا کہہ دیا ہے اور سہیل وڑائچ یا حامد میر جیسے باخبر صحافی کس بات سے ڈر رہے ہیں؟ یہ سوال کسی کی زبان پر ہو یا نہ ہو، ذہن میں سبھی کے ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ سوال محاورے کے مطابق کفن پھاڑ کر چلانے لگے، بہتر یہی ہے کہ کچھ غور اپنے دائیں بائیں پر کر لیا جائے۔

مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ دوٹوک اور واضح ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی فیصلے پر عملدرآمد کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی اس نے ادارے کے قانونی امور دیکھنے والے شعبے سے کہا ہے کہ وہ فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے طریقے تلاش کرے اور اگر عملدرآمد میں کوئی رکاوٹ موجود ہے تو وہ اس کی نشاندہی کرے تاکہ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ سے رہنمائی لی جا سکے۔ الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز میں اور بھی کئی نکات ہیں لیکن بیشتر نکات وہی ہیں جن کی باز گشت اس فیصلے پر ماہرین کے تبصروں اور بعض سیاست دانوں کی تنقید میں سنی جاچکی ہے۔ اصل نکتہ وہی ہے جس کا یہاں ذکر ہوا کہ اگر فیصلے پر عملدرآمد کی راہ میں کوئی نکتہ رکاوٹ ڈالتا ہے تو اس کی نشاندہی کی جائے۔ یہ نکتہ کیا ہے؟ الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز میں اس جانب کوئی کھلی رہنمائی تو نہیں ملتی لیکن حالیہ دنوں میں فیصلے پر جو گفتگو ہوئی ہے، اس پر توجہ دی جائے تو بات کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہے۔

19 جولائی کو لاہور ماڈل بازار کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے بہت اہم باتیں کہی ہیں اور سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جانے وہ کون لوگ ہیں جنہیں ترقی کرتا ہوا ملک نہیں بھاتا۔ وہ اس ملک پر قوم کے ایک مجرم کو لا کر بٹھانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پہلے عمر عطا بندیال نے آئین کو ری رائٹ کیا، اب اس فیصلے کے ذریعے کیا گیا ہے۔ آئین کا ری رائٹ ہونا کیا ہے؟ اس کی نشاندہی بھی انہوں نے یہ کہہ کر کردی کہ وہ ارکان جو پہلے حلف جمع کرا چکے ہیں، انہیں کہا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کو جوائن کرو یعنی ایک  اور حلف دیں۔ وہ کس کا ذکر کررہی ہیں؟ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ ان ارکان قومی اسمبلی کا ذکر ہے جنہوں نے قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے 3 دن کے اندر اندر سنی اتحاد کونسل میں برضا و رغبت شمولیت اختیار کی۔ کسی آزاد رکن کی کسی جماعت میں شمولیت ایک حلف اور عہد ہوتا ہے جس کی حرمت آئین میں بیان کی گئی ہے۔ مریم نواز نے سوال اٹھایا کہ یہ کس قسم کا فیصلہ ہے کہ ایک حلف وہ پہلے اٹھا چکے ہیں لیکن ان سے کہا جارہا ہے کہ تم فلور کراسنگ کرو یعنی پہلے حلف پر ایک حلف اور اٹھا لو۔ یہ نکتہ جو وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے اٹھایا، اس کی باز گشت بعض دیگر سیاسی قائدین کی گفتگو میں بھی ملتی ہے اور ماہرین قانون بھی یہی سوال اٹھاتے ہیں۔

اس سلسلے میں میری جن ماہرین قانون سے بات ہوئی ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہی وہ اصل نکتہ ہے جس نے فیصلے پر عملدرآمد میں ایک آئینی اور قانونی رکاوٹ کھڑی کردی ہے۔ امکان یہی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ اس کی طرف سے رہنمائی کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنے کا مطلب بھی یہی ہے۔

اب معاملے کے دوسرے رخ پر نظر ڈالیے۔ ایسی کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو جیسا الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اشارہ دیا ہے، وضاحت کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا جائے گا۔ آئین کی تشریح کے اعلیٰ ترین ادارے سے رجوع کا مطلب یہی ہے کہ وہ آئین کی روشنی میں مسئلے کا حل بتا دے گا۔ اصول کی روشنی میں یہی بات قرین قیاس ہے لیکن قانون کی دنیا میں قیاس کے علاوہ نظیر کی اپنی اہمیت ہے۔

بعض لوگ تو اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے مولوی تمیزالدین کیس تک جا پہنچتے ہیں لیکن کچھ لوگ اتنا پیچھے نہیں جاتے صرف پاناما پیپرز کیس تک پہنچتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ بلیک لا ڈکشنری کی دریافت اور پاناما سے روگردانی کرکے اقامہ سے مدد لینے جیسی مثالیں ایک خاص ذہن کی نشاندہی کرتی ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ ذہن آرٹیکل 63 کی تشریح کے مقدمے میں واضح ہوا۔ یہی مقدمہ ہے جس میں فلور کراسنگ کے سوال کی تشریح آئین کی منشا کے برعکس ہوئی۔ یہی وہ پہلا مقدمہ ہے جس کے بارے میں عمومی تاثر مضبوط ہوا کہ یہاں آئین کی تشریح نہیں کی گئی بلکہ از سر نو آئین لکھا گیا ہے۔

ایسا تاثر کیوں پیدا ہوا؟ اس معمے کو سمجھنے کے لیے بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں لیکن عمر عطا بندیال کے ’گڈ ٹو سی یو‘ پر آکر بات رک جاتی ہے۔ انصاف کے ایوانوں میں رونما ہونے والا یہ واقعہ اپنی نظیر آپ ہے۔ اس واقعے نے ان ایوانوں کے بارے میں بہت سے مفروضوں کو تقویت دی۔ انصاف کی مسند پر بیٹھے شخص کے سامنے کوئی بادشاہ آ جائے یا فقیر، ہر دو صورتوں میں اس کی ذمے داری وہی ہے جسے انصاف کے ایوانوں کی علامت کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف کی دیوی کے لیے سب برابر ہوتے ہیں۔ اسے چونکہ کچھ دکھائی نہیں دیتا، اس لیے نہ اسے کبھی معلوم ہوتا ہے کہ کسے ’گڈ ٹو سی یو‘ کہنا ہے اور نہ اسے معلوم ہونا ہے کہ کس کے ’لتے‘ لینے ہیں۔ کسی معاملے یا کچھ معاملات میں اس قسم کے واقعات رونما ہونے لگیں اور دیوی کا جھکاؤ کسی جانب محسوس ہونے لگے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ترازو کا پلڑا غیر متوازن چکا۔

پاناما کیس ہو یا آئین کی دفعہ 63 کی تشریح کا معاملہ جس میں فلور کراسنگ کی تشریح نے ایک نیا رنگ اختیار کرلیا۔ اسی طرح بعض ضمانتوں کے ضمن میں سامنے آنے والا طرز عمل بھی دلچسپ رہا۔ کیا یہ فیصلے دلچسپ نہیں ہیں کہ ان مقدمات میں بھی ضمانت ہے جو قائم کیے گئے ہیں اور ان مقدمات میں بھی ضمانت ہے جو قائم کیے جائیں گے۔ یہی بات ہے جس کے بارے میں خوشگوار انداز میں کہا جاتا ہے کہ ان مقدمات میں بھی ضمانت ہے جو آپ کے ذہن میں ہیں۔

مخصوص نشستوں کے مقدمے کا فیصلہ آ جانے کے بعد بہت سے لوگ خاص طور پر صاحبان معاملہ سوچتے ہیں کہ یہ فیصلہ بھی اسی فہرست میں شامل ہوچکا ہے لہٰذا اس کے بعد اگر کسی تشریح کی ضرورت ہے یا کسی قضیے کے فیصلے کی تو اس ضمن میں بھی توقع یہی ہے کہ روایت برقرار رہے گی۔ ان لوگوں کے خیال میں اگر یہی روایت برقرار رہنی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کسی شخص کی محبت اس قدر غالب آچکی ہے کہ آئین اور قانون بھی اس کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ ایسا مقام ہی ہوتا ہے جب پانی شور مچاتا ہوا سر سے گزر جاتا ہے۔ کچھ لوگ یہی خدشہ محسوس کررہے ہیں اور خواجہ آصف کی پریشانی بھی یہی ہے جسے انہوں نے آئینی نظام کے انہدام کا خطرہ قرار دیا ہے۔

اچھا، یہ خطرہ تو ہوا لیکن یہ کیا ہے جس کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کیا؟ تارڑ صاحب نے دو باتیں کہی ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی پر پابندی کی بات کہی ہے اور آرٹیکل 6 کے تحت چند لوگوں کے خلاف آئین شکنی کا ریفرنس بھیجنے کی بات کی ہے۔ جیسا کہ توقع تھی، ان باتوں سے طوفان اٹھے گا، بالکل ایسا ہی ہوا لیکن یہ بات ایک جگہ آکر پھر رک گئی۔ اس قسم کی باتیں ایک ہی جگہ پہنچتی ہیں یعنی انصاف کی دیوی کے معبد تک۔ ان دنوں لوگوں کا خیال یہ ہے دیوی چپکے سے اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کو زرا سا سرکا دیتی ہے۔ اس لیے عمومی خیال یہی ہے کہ یہ قضیہ بھی ایسے ہی نمٹے گا جیسے اب تک کے قضیے نمٹتے آئے ہیں۔ یوں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نتیجہ معلوم ہے تو پھر ایسے کشٹ کھینچنے کا مقصد کیا ہے؟

یہ سوال ہی ہزار سوالوں سے بڑھ کر ہے۔ اس سوال کا جواب پا لیا جائے تو معمہ تقریباً حل ہوجاتا ہے۔ کاروبار زیست میں بہت سے مشکل مقامات آتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں دوست ہوں یا دشمن، پر دونوں کوئی حتمی قدم اٹھانے سے قبل اول اپنی اور مد مقابل کی قوت کا اندازہ لگاتے ہیں، مڈبھیڑ کی صورت میں فائدے نقصان کا میزان کرتے ہیں لیکن اگر فریقین معاملہ سمجھدار بھی ہوں تو وہ اس کے ساتھ ہی نامہ و پیام بھی کرتے ہیں۔ بتا دیتے ہیں کہ اگر ہم اسی روش پر قائم رہتے ہیں تو نتیجہ کیا نکلے گا۔ اس بحث کے بعد اگر خواجہ آصف صاحب کے اندیشے کا تجزیہ کیا جائے تو شیطان کے کان بہرے، کچھ حقائق دیوار پر لکھے دکھائی دیتے ہیں اور اگر تارڑ صاحب کی اطلاع پر توجہ دیں تو اس پیچیدہ صورتحال میں یہ واضح کرنے کی کوشش نظر آتی ہے کہ سیلاب اب بہت بڑھ چکا اور پانی اپنے کناروں سے نکل کر کھیتوں کو ڈبو رہا ہے۔ اس انتہا میں درمیان کا ایک راستہ موجود ہے۔ تارڑ صاحب نے یہی درمیانی راستہ بتانے کی کوشش کی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ صاحب ہوں یا رانا ثنااللہ صاحب، ہر دو صاحبان نے مختلف مواقع پر جو کچھ کہا ہے، وہ اسی نامہ و پیام کی تشریح ہے۔ مریم نواز نے یہی بات زیادہ کھلے الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی ہے، مقصد شاید یہی ہے کہ سمجھنے والے سمجھ جائیں۔ اگر نہیں سمجھتے تو اس بار کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس کا سبب وہ نہیں ہوں گے جو ہمیشہ ہوتے ہیں، سیلاب ہوگا جو سب کچھ بہا لے جانے پر تلا ہوا ہے۔ درمیانی راستہ بتانے والے بڑے ایوان میں بیٹھے ہوں یا پڑوس میں پڑے ہوں، وہ تو ہمیشہ طوفانوں کی زد میں رہے ہیں، اب بھی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp