یوں تو سیوریج کے پانی اور اہل کراچی کا بہت پرانا ساتھ ہے لیکن شہر قائد کے علاقے نارتھ کراچی میں ایک ایسا اسکول بھی ہے جہاں آکر تعلیم کے سوا ہر خیال آپ کے ذہن میں آسکتا ہے، کیونکہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مناسب ماحول ہونا لازم ہے۔
مولانا شوکت علی پرائمری اسکول کی تعمیر 1993 میں ہوئی، اسکول کے سامنے کھیل کا بڑا میدان ہے، جہاں بچے کھیل کود میں بھی مصروف رہتے ہیں، ہزاروں کی آبادی کے لیے یہاں پر صرف ایک ہی اسکول موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں فرنیچر نہ عمارت، پبلک پارک میں انوکھا اسکول
اس پرائمری اسکول کی عمارت خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جبکہ جو جگہ ٹھیک ہے وہ بھی کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔
ان دنوں موسم گرما کی تعطیلات کے باعث عمارت کے اندر جانا تو ممکن نہیں تاہم اسکول جانے کے لیے جس راستے کا بھی انتخاب کریں وہ گندے پانی سے بھرا ہوا ہے، چار دیواری ہر طرف سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جبکہ اس کے اندر ایک ضعیف عمارت چیخ چیخ کر نئی تعمیر کے لیے پکار رہی ہے۔
اسکول کی عمارت میں کتا رہائش پذیر
اسکول کے اندر ایک بلب جل رہا ہے، تاکہ ایک کتا جو اس اسکول میں رہتا ہے اسے روشنی فراہم کی جاسکے۔ تاہم اسکول کا فرنیچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
اسکول کے احاطے میں موجود گراؤنڈ کی بات کی جائے تو یہاں گزشتہ 3 برس سے سیوریج کا پانی موجود ہے، جبکہ ساتھ ہی کچرے کا بھی ڈھیر ہے۔
یہ بھی پڑھیں کیا کوئٹہ میں سرکاری اسکول بھی ڈیجیٹل سہولیات سے لیس ہیں؟
علاقہ مکین محمد عباس کہتے ہیں کہ یہاں پر پارک ہونا چاہیے تھا جہاں بچوں کو کھیلنے کی سہولت میسر آتی، لیکن اس علاقے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا، سیوریج کا پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
’حکام سروے کرکے چلے جاتے ہیں، کام شروع نہیں ہوتا‘
ایک اور مقامی شخص آصف نے کہاکہ اسکول کی دیواریں گرچکی ہیں، اور یہ صورتحال 3 سال سے درپیش ہے، حکام سروے کرنے کے لیے آتے ہیں لیکن کام شروع نہیں ہوسکا۔
محمد عالم نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا اس عمارت کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اسکول ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ جگہ مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب دیکھ چکے ہیں لیکن عمارت کی دوبارہ تعمیر کے لیے اقدامات نہیں کیے۔
ایسے ماحول میں بچے کیسے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں؟
نوجوان شہریار نے کہاکہ اس اسکول کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ تعلیم کے نام پر کتنا بڑا مذاق کیا جارہا ہے، کیا اس ماحول میں بچے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں سندھ کی بچیاں اسکول جانے سے کیوں ڈرتی ہیں؟
شہریار نے سروے کے دوران بتایا کہ جس جگہ پر ہم کھڑے ہیں یہاں پولنگ اسٹیشن بنایا گیا تھا اس لیے یہاں پر مٹی ڈالی گئی تھی، یعنی اسکول جس مقصد کے لیے بنا وہ پورا ہو یا نہ ہو ووٹنگ کا عمل ضرور ہونا چاہیے۔