سندھ کی بچیاں اسکول جانے سے کیوں ڈرتی ہیں؟

پیر 23 اکتوبر 2023
author image

سونیا خانزادہ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سندھ میں شرح خواندگی 61.8 فیصد ہے۔ اسکول جانے والے کل 44 فیصد بچوں میں سے 37 فیصد لڑکیاں ہیں۔ اساتذہ کی 9 ہزار 4 سو 91 اسامیاں خالی ہیں۔

 کراچی کے نجی اسکول کی طالبہ، رافعہ نویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ انہیں اسکول جانے سے خوف آتا ہے کیونکہ اساتذہ آتے ہیں، گزشتہ سالوں کی کاپیوں سے کام لکھواتے ہیں اور باقی گھر کے لئے دے دیتے ہیں، سمجھاتے کچھ بھی نہیں۔ اگر ایک سوال دوبارہ پوچھ لیں تو جواب دینے کے بجائے ہم جماعتوں کے سامنے بےعزتی کی جاتی ہے۔

رافعہ آٹھویں جماعت تک امی اور بہن کی مدد سے ہوم ورک مکمل کرتی تھیں۔ جبکہ امتحان کے لیے انگریزی، سائنس، اور ریاضی کے سوالات بھی رٹہ مار کر یاد کرتی تھیں۔ نویں جماعت میں آنے کے بعد 6 ماہ سے انہیں کورس کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ اسکول میں ہر روز ایک ہی طعنہ سننے کو ملتا ہے کہ “تم جیسے بچے نہیں پڑھ سکتے۔ ” وہ یہ اسکول چھوڑنا چاہتی ہیں جس وجہ سے رافعہ کے والدین بھی پریشان ہیں۔

لیکن اس مشکل کا شکار اکیلی رافعہ نہیں ہے۔ سرکاری اور نجی اسکولوں میں پڑھنے والے ہر 10 میں سے 9 بچوں کی یہی مشکل ہے۔ سندھ کا پسماندہ نظام تعلیم اور اسکول ان کے دلوں میں خوف بٹھا رہا ہے جس کے وجہ سے یہ اسکول جانے سے گھبراتے ہیں اور تعلیم کا سلسلہ ترک کر دینا چاہتے ہیں۔

بچوں کو پڑھانا والدین کے لیے امتحان بن گیا

صحافی ظہیر حسین اعوان کراچی سمیت سندھ کے فرسودہ تعلیمی نظام کی کئی بار نشان دہی کر چکے ہیں۔ بطور والد وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہےبچوں کو پڑھانا والدین کے لیے کڑا امتحان بن گیا ہے۔ اسکولوں میں بچوں کو پڑھایا نہیں جاتا ہے بلکہ ہوم ورک کے نام پر بوجھ لاد کر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اتنے مشکل اسائنمنٹ دیے جاتے ہیں جو بچے خود کر ہی نہیں سکتے۔ ٹیچرز کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ یہ والدین ہی کریں گے لیکن پھر بھی بچوں کو اسائن کر دیتے ہیں۔ پہلے زمانے میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب اسکول خود بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ کیوں کہ اب وہ بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے کو تیار نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ صرف بھاری بھرکم فیسیں بٹوریں اور جب بچوں کے اچھے رزلٹ آئیں تو کریڈٹ بھی خود لیں۔ اس دوران تعلیمی اخراجات کے نام پر چاہے والدین کا دیوالیہ ہی نکل جائے۔ مزید یہ کہ بچوں کو اسکول میں پڑھانے کے نام پر صرف رٹہ لگانے پر زور ہے۔ لیکن ان کے علم میں کوئی اضافہ ہوتا ہے نہ انہیں مفہوم سمجھ آتا ہے۔

 ملک میں یکساں تعلیمی نظام اور بہتر نصاب کا فقدان

تعلیم کے حصول کے لئے مربوط منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے، تعلیمی نصاب کو ماضی حال اور مستقبل کے حوالے سے پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ سندھ میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن اس شعبہ کو 75 سالوں میں آج تک سنجیدہ تک نہیں لیا گیا۔ وائس چانسلر جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں چار قسم کی تعلیم دی جارہی ہے جس میں میٹرک سسٹم، کیمبرج سسٹم، او اے لیول، اور مدارس شامل ہیں۔ ہر جگہ مختلف نصاب اور طریقہ تدریس رائج ہے۔ ہر طرف گریڈز کی دوڑ لگی ہے۔ طلبا کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور ان میں تخلیقی اور تنقیدی سوچ پیدا کرنے پر کوئی توجہ نہیں۔

پاکستان اکنامک سروے رپورٹ(2022-2023)

پاکستان اکنامک سروے کے مطابق پاکستان میں 62.4 فیصد شرح خواندگی ہے۔ صوبے سندھ میں خواندگی کی شرح 61.8 اعشاریہ ہے۔ پاکستان میں 32 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ تمام صوبوں میں صوبہ سندھ میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ 44 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ ان میں اسکول سے باہر لڑکیوں کی شرح 37 فیصد جبکہ لڑکوں کی 27 فیصد ہے۔ ڈائریکٹر نان فارمل ایجوکیشن سندھ آفتاب احمد شیخ کے مطابق پاکستان میں شعور اور وسائل کے فقدان کی وجہ سے شرح خواندگی کم ہے۔ ماپی گئی شرح خواندگی میں بھی معیار کا مسئلہ ہے۔

سندھ کے ڈوبتے تعلیمی ادارے

علم انسان کی تیسری آنکھ ہے۔ یہ کہاوت تو عام ہے مگر آج کل علم کا حصول عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔ سندھ میں کورونا ہو یا سیلاب، غربت ہو یا کوئی اور آفت، متاثر تعلیم ہی ہوتی ہے۔ محکمہ اسکول ایجوکیشن کی رپورٹ 2022سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق 49 ہزار 446 سرکاری اسکولوں کی عمارتوں میں سے 29 ہزار 278 عمارتیں سیلاب سے متاثر ہوئی ہیں۔ ان عمارتوں میں 15ہزار 8 سو عمارتیں جزوی جبکہ 13 ہزار 478 عمارتیں مکمل طور پر ناقابل استعمال یا تباہ ہوچکی ہیں۔ سندھ میں سکھر ریجن سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 4ہزار 5 سو متاثرہ اسکول ہیں۔ ان میں سے 15 سو اسکول مکمل تباہ ہوچکے ہیں جبکہ 3 ہزار جزوی متاثر ہیں۔ کراچی کے مجموعی 3ہزار 41 سرکاری اسکولوں میں سے 2ہزار 78 اسکول متاثر ہیں جن میں 11 سو جزوی جبکہ 9سو 78 مکمل طور تباہ ہیں۔ محکمہ تعلیم کے مطابق کراچی کے متاثرہ اسکولوں میں ملیر، گڈاپ اور ابراہیم حیدری کے اسکول شامل ہیں۔

ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پرائیوٹ اسکول کی رجسٹریشن

صوبے سندھ میں پرائیویٹ اسکولوں کا ڈیٹا کبھی جمع نہیں گیا۔ سال 2018 میں رجسٹرار کے عہدہ پر فائز ہوتے ہی رفیعہ ملاح نے اسکولوں کی تعداد کے حوالے سے کمپیوٹرائز سسٹم بنایا جس کے بعد پرائیویٹ اسکول کی تعداد سامنے آئی اور گھوسٹ اسکولوں کو سیل کیا گیا۔ ساتھ ہی اسکولوں کو ایک مخصوص کوڈ بھی مہیا کیا گیا جس سے اسکول کا تمام ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا رہے گا۔

رفیعہ ملاح کے مطابق پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم طالب علموں کی تعداد 39 لاکھ 41 ہزار 938 بتائی گئی ہے جن میں 18 لاکھ 4 ہزار 333 طالبات اور 21 لاکھ 37 ہزار 605 طلبہ شامل ہیں۔ اقلیتوں کی تعداد ایک لاکھ 66 ہزار 788 ہے۔ رائٹ ٹوانفارمیشن ایکٹ کے تحت محکمہ تعلیم سندھ سے لئے گئے اعدادوشمار کے مطابق سندھ کے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی مجموعی تعداد 45 لاکھ 61 ہزار 140 ہے۔ ان میں سے 28 لاکھ 12 ہزار طلبہ جبکہ طالبات کی تعداد 17 لاکھ 49 ہزار 140 ہے۔

تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلی کی اشد ضرورت

سندھ سرکاری اسکول میں 2013 سے پڑھانے والی شمشاد کا کہنا ہے کہ تعلیمی پالیسی سازوں کو نظام میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ہمارے طالبعلم نہ مکمل طور پر مذہب کے حوالے سے معلومات ر کھتے ہیں نہ برق رفتار ترقی کے اس دور میں دنیا کے ساتھ چلنے کا حوصلہ۔

 سندھ میں رائج نظام تعلیم کے 2 مختلف انداز

ڈائریکٹر نان فارمل ایجوکیشن سندھ آفتاب احمد شیخ کے مطابق تعلیم کیلئے 2 نظام ہوتے ہیں : فارمل اسکول سسٹم اور انفارمل ایجوکیشن سسٹم۔ فارمل اسکول سسٹم میں ایک عمارت میں اساتذہ ہوتے ہیں، نصاب اور وقت کی پابندی کی جاتی ہے جبکہ نان فارمل ایجوکیشن سسٹم میں خصوصی نصاب کے تحت ان بچوں کو پڑھایا جاتا ہے جو وقت پر تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ این جی اوز اور پرائیویٹ سیکٹر پارٹنرشپ کی مدد سے 5 سال کی تعلیم نان فارمل طریقے سے ڈھائی سال میں ڈلیور کی جاسکتی ہے۔ سندھ ایجوکیشن لٹریسی ڈپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق فارمل اسکول سسٹم میں 10.2 ملین بچے پڑھ رہے ہیں جبکہ 64 ہزار بچےمختلف جگہوں پر نان فارمل ایجوکیشن سسٹم کے تحت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ فارمل ایجوکیشن حاصل کرنے والے بچوں میں سے 4 ملین بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

سرکاری اورنجی اسکولوں میں اساتذہ کے اعداد وشمار

اسکولوں میں اساتذہ کی کمی سے بھی نظام تعلیم متاثر ہو رہا ہے۔ سندھ میں سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی مجموعی تعداد 1 لاکھ 33 ہزار 76 ہے۔ ان میں مرد ٹیچر 90 ہزار 207 یعنی تعداد کا 68 فیصد ہیں جبکہ خواتین ٹیچرز کی تعداد 42 ہزار 869 ہے جو مجموعی تعداد کا 32 فیصد ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن سے حاصل شدہ اعداد وشمار کے مطابق کراچی میں محکمہ تعلیم سندھ میں 27 ہزار 21 استاتذہ، تدریسی اور غیر تدریسی عملہ کی اسامیاں ہیں جن میں 17 ہزار 530 اسامیوں پر اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ تعینات ہے جبکہ 9 ہزار 491 اسامیاں خالی پڑی ہیں۔

ڈائریکٹر ایجوکیشن افیسر یار محمد بلیدی کا کہنا تھا کہ کراچی میں مجموعی طور پر 13 ہزار 283 اساتذہ ہیں جبکہ 4 ہزار 247 غیر تدریسی عملہ کام کررہا ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے نجی اسکولوں میں ملازمین کی تعداد 2 لاکھ 98 ہزار 938 ہے جس میں 2 لاکھ 5 ہزار 158 اساتذہ اور 73 ہزار 780 غیر نصابی عملہ ہے۔ سندھ کے مالی سال 2018 اور 2019 کے دوران 17 ہزار 711 اساتذہ نے سالانہ اور رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لی ہے۔ گزشتہ برس 4 ہزار 948 پرائمری اسکول ٹیچرز اور 3 ہزار 588 جونیئر اسکول ٹیچرز بھرتی کئے گئے ہیں۔

 گھوسٹ ملازمین

سرکاری اسکولوں میں بھرتیاں تو ہوجاتی ہیں اوراثرو رسوخ کے باعث تنخواہ لینے کے باوجود اساتذہ اسکول نہیں آتے۔ اپنے فرائض سے قطعی بے خبر سندھ اور کراچی کے اساتذہ مراعات کے لیے آئے دن کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔

میرپورخاص کی ٹیچرعائشہ سومرو نے سال 2021 میں پرائمری سرکاری اسکول میں نوکری حاصل کی۔ وہ کہتی ہیں سرکاری اسکول میں بچے نہ ہونے کے برابر ہیں، ٹائمنگ کا مسئلہ نہیں ہوتا، سکون ہے، بس شکل دکھانی ہوتی ہے۔

نگراں وزیر اعظم نے بھی رواں ماہ کراچی کے اسکولوں کا دورہ کیا اور ایسے اساتذہ کو ہاتھوں ہاتھ فارغ کیا۔

کراچی کے تعلیمی اداروں کی حالت زار

حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم کے ریفارم سپورٹ یونٹ کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں 22 ہزار 843 اسکولوں میں پانی، 17 ہزار 231 اسکولوں میں بجلی، 29ہزار 634 اسکولوں میں بیت الخلا، 27 ہزار 144 اسکولوں میں بیرونی دیوار جبکہ 5 ہزار 773 اسکولوں میں ہاتھ دھونے کی سہولیات موجود ہیں۔ یہ اعداد و شمار مالی سال 2018 اور 2019 کے دوران 49 ہزار 103 اسکولوں کے سروے کے دوران اکٹھے کیے گئے۔ 2019 کے بعد سرکاری سطح پر اس حوالے سے کوئی نگرانی نہیں کی۔

 سندھ کا تعلیمی معیاراور نیا نصاب کامیابی کا ضامن ہوگا یا نہیں

نگراں وزیر تعلیم سندھ رعنا حسین نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ نظام تعلیم کو بہتر کرنے کے لئے نصاب میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔ کورس بکس بھی تبدیل کی جارہی ہیں، کتابیں چھپنے میں کوتاہی ضرور ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بارہویں جماعت کی انگریزی کی کتاب کو وہ رد کر چکی ہیں۔ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں معاشرتی علوم پڑھایا جاتا ہے، اس میں بھی تبدیلی کی اشد ضرورت تھی۔ فیڈرل نصاب میں بھی بہت سی کمزوریاں ہیں، میں نے مستقل اس پر اواز اٹھائی ہے۔ صوبہ سندھ کا نصاب باقی صوبوں سے بہتر ہے لیکن کتابوں کی کمی ہے، اسے ترتیب دی جا رہی ہے، فیڈرل لیول سے ریلیز پاس ہو گئی ہےلیکن ہمیں خرچ کرنے کی اجازت نہیں ملی ہے جس کے لئے مسلسل کوششیں کررہے ہیں۔ سندھ میں بہت سی جگہ ہے، ایسے اسکول بھی بنائے گئے جن کی ضرورت نہیں تھی، مشرف صاحب کے زمانے میں ون روم اسکول بنائے گئے ہیں جو تعلیم کے لئے معیاری نہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ 4 سے 5 کمرے کے اسکول کم سے کم ہوں۔ اینول ڈیولپمینٹ ہمارا پلان ہے اور ہم ایشین ڈیولپمینٹ بینک سے جو پیسے لے رہے ہیں، تعلیمی سہولیات کو بہتر کرنے کے لیے لے رہے ہیں۔ پیپلز سکول پروگرام کے تحت صوبے سندھ کے 30 ڈسٹرکٹ میں 2 اسکولز بنائے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود 2 اسکولوں میں پڑھا رہی ہیں اور ڈیوٹی کے اوقات میں خود دفتر بیٹھتی ہیں نہ اسٹاف کو بیٹھنے دیتی ہیں۔

فرسودہ تعلیمی نظام مستقبل کے معماروں کی ترقی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اپنے تعلیمی نظام کو اکیسویں صدی کی ضروریات کے عین مطابق بنانا حکومت سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آ گاہی کے دائرے کو وسیع کیا جائے تاکہ بہتر معاشرہ اور بہتر شہری سامنے لایا جا سکے جو ملک کا روشن ستارہ بن کر پوری دنیا میں چمکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp