سابق نگراں وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے کہا کہ ملک کو بچانے کے لیے 40 خاندانوں (آئی پی پیز) کے ساتھ ان ظالمانہ معاہدوں کے خلاف اٹھنا چاہیے، اب میں قوم پر چھوڑتا ہوں کہ وہ آئی پی پیز پر کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک سال میں کئی ہزار ارب اضافی بل دینے والی قوم رو رہی ہے، گھریلو صارفین آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدوں کے سبب ماہانہ ہزاروں روپے بل دے رہے ہیں۔
سابق نگراں وفاقی وزیر اور پیٹرن انچیف اپٹما گوہر اعجاز کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مہنگے ترین آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگیاں 1.95 ٹریلین روپے ( 1950 ارب) ہیں۔ آئی پی پیز معاہدوں کی وجہ سے حکومت بعض پاور پلانٹس سے بجلی 750 روپے فی یونٹ بجلی خرید رہی ہے۔
’حکومت کول پاورپلانٹس سے اوسطاً 200 روپے فی یونٹ جبکہ ونڈ اور سولر کی 50 روپے فی یونٹ سے اوپر قیمت ادا کر رہی ہے‘۔
مزید پڑھیں: بجلی گھروں میں تھر کا کوئلہ استعمال کرنے سے قیمت پر فرق پڑے گا، وزیر توانائی
گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ ان مہنگے ترین آئی پی پیز کو کی گئی ادائیگی 1.95 ٹریلین روپے ( 1950 ارب روپے) ہے، حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے ادائیگی کر رہی ہے اور دوسرے پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے ادا کر رہی ہے جبکہ تیسرے پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کر رہی ہے، یہ صرف 3 پلانٹس کے لیے 370 ارب روپے بنتے ہیں۔
’بند پاور پلانٹس پر اربوں روپے ماہانہ چارجز لینے والوں کو جوابدہ ہونا چاہیے‘۔
پیٹرن انچیف اپٹما گوہر اعجاز نے کہا کہ صرف سستی ترین بجلی فراہم کرنے والوں سے بجلی خریدی جائے، یہ پلانٹس 52 فیصد حکومت کی ملکیت ہیں، 28 فیصد نجی سیکٹر کی ملکیت ہیں، اس لحاظ سے 80 فیصد پلانٹس پاکستانیوں کی ملکیت ہیں، کرپٹ ٹھیکوں، بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے ہمیں بجلی 60 روپے فی یونٹ بیچی جا رہی ہے۔
’حکومت کی نیت ٹھیک ہو تو 60روزمیں بجلی سستی ہوسکتی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کی قیمت 8 روپے فی یونٹ سے کم کیوں ہونی چاہیے، سابق وفاقی وزیر نے بتادیا؟
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم صرف 200 ارب روپے کے ایک گروپ کے کیپیسٹی چارج کو تیار کردہ بجلی میں تبدیل کر دیں تو پاکستان کے تمام تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کم ہو کر 10 فیصد تک آسکتا ہے۔ یہ سب معاہدوں میں ’کیپیسٹی پیمنٹ‘ کی اصطلاح کی وجہ سے ہے، نتیجے میں بجلی پیدا کیے بغیر آئی پی پیز کو بڑی صلاحیت کی ادائیگی ہوتی ہے۔