سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے بعد حکومت، بالخصوص مسلم لیگ ن کی جانب سے عدلیہ پر تنقید کی جارہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ ن کے صدر و سابق وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کھل کر سامنے آگئے ہیں، اس سے پہلے اپوزیشن بھی سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تنقید کرچکی ہیں۔
نواز شریف اور مریم نواز سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیداران کے بیانات سے ایسا معلوم ہورہا ہے کہ جیسے حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوگئی ہے اور ملک کسی آئینی بحران کا شکار ہونے والا ہے۔
یہ بھی پڑھیں ایمرجنسی یا مارشل لا لگنے سے کیا لوگوں کی زبان بند ہوجائے گی؟ شیخ وقاص اکرم
وی نیوز نے سیاسی تجزیہ کاروں اور قانونی ماہرین سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیسے اس ممکنہ آئینی بحران سے بچا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ پر حملے کی بنیاد نواز شریف نے 1993 میں رکھی، ارشاد عارف
سیاسی تجزیہ کار ارشاد عارف نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں عدلیہ پر تنقید کا رواج رہا ہے، جو فیصلہ حق میں نہ آئے اس میں کیڑے نکالے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہم سے زیادتی ہوئی ہے، لیکن عدلیہ کو بطور ادارہ ٹارگٹ کرنا، ججوں کے نام لے کر ان پر حملہ آور ہونا یا براہِ راست سپریم کورٹ پر حملے کی بنیاد نواز شریف نے 1993 میں رکھی تھی۔
انہوں نے کہاکہ عدلیہ سے محاذ آرائی کا فائدہ ہمیشہ سے فوجی آمر اٹھاتے آئے ہیں اور ملک میں مارشل لا کا نفاذ ہو جاتا ہے۔
ارشاد عارف نے کہاکہ اس وقت عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی محض ایک بہانہ ہے، دراصل ایک بیانیہ بنایا جارہا ہے چونکہ حکومت کچھ ڈیلیور نہیں کررہی اور شہادت کا راستہ اختیار کررہی ہے کہ اگر ہماری حکومت کسی وجہ سے ختم ہوتی ہے تو کہیں گے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا، ہم تو بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور بہت کچھ ڈیلیور کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ہمیں عدلیہ نے کمزور کردیا۔
یہ بھی پڑھیں ملک میں مارشل لا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: آئی ایس پی آر
سینیئر تجزیہ کار نے کہاکہ حکومت اور اتحادیوں نے وہ مخصوص نشستیں حاصل کیں جو ان کا حق نہیں تھا، جب عدلیہ نے فیصلہ دیا کہ نشستیں واپس دیں تو اس فیصلے پر تنقید بنتی نہیں ہے، ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلے لے، جو شخص بھی عدلیہ اور ججز پر حملہ آور ہوتا ہے وہ دراصل انصاف کے خلاف ہے۔
نواز شریف اور مریم نواز نے غیرذمے دارانہ بیانات دیے، ایڈووکیٹ مبین قاضی
ماہر قانون ایڈووکیٹ مبین قاضی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ نواز شریف اور مریم نواز نے جو بیانات دیے ہیں وہ بالکل غیر ذمے دارانہ ہیں، سپریم کورٹ کے پاس مکمل انصاف دینے کا اختیار ہے، اور انہوں نے فیصلہ کرکے پی ٹی آئی کو انصاف دیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ مخصوص نشستوں سے متعلق پہلے فیصلہ دینے والے ججز نے بھی کہاکہ ہمارے فیصلے کی الیکشن کمیشن نے غلط تشریح کی۔ سپریم کورٹ اور ججز سے متعلق ایسے بیان دے کر حکومت کا چلنا مشکل ہوگا۔
ایڈووکیٹ مبین قاضی نے کہاکہ ملک میں مارشل لا یا ایمرجنسی کا نفاذ تب کیا جاتا ہے کہ جب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی ہو، اس وقت دونوں ایک پیج پر ہیں، اس وقت حکومت جو بھی فیصلے کررہی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہورہے ہیں، سرکاری میڈیا اور نجی میڈیا پیمرا کے ذریعے کنٹرول میں ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس وقت ملک میں کسی مارشل لا یا ایمرجنسی کے نفاذ کا راستہ نظر نہیں آرہا، جنرل پرویز مشرف کی لگائی گئی ایمرجنسی کے خلاف کیسز کی سماعت کے دوران عدلیہ نے اس طرح سے آئین توڑنے کا راستہ بند کردیا ہے، اب یہ سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے، اسی وجہ سے بہت سے مواقع آئے لیکن ملک میں مارشل لا کا نفاذ نہیں کیا گیا۔ فوجی قیادت خود کو کسی مشکل میں ڈال کر رسک نہیں لے گی۔
یہ بھی پڑھیں بلاول بھٹو نے مارشل لا کے خدشے کا اظہار کر دیا
عدلیہ سے محاذ آرائی حکومت کے لیے بڑا خطرہ ہے، جی ایم چوہدری
ماہر قانون دان ایڈووکیٹ جی ایم چوہدری نے کہاکہ حکومت کو اس وقت بجلی کے زیادہ بلوں کے باعث عوامی احتجاج، 26 جولائی کو جماعت اسلامی کا دھرنا اور دیگر معاشی و سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے، ایسے میں عدلیہ سے محاذ آرائی کرنا حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے.
انہوں نے کہاکہ اس معاملے کا بہت ہی آسان حل ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی کی جو نشستیں ہیں وہ ان کو دے دی جائیں، اس میں زیادہ تاخیر بھی نہیں کرنی چاہیے، ویسے بھی یہ 23 نشستیں پی ٹی آئی کو ملنے سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔