ملک اس وقت افواہوں کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ ہر گزرتے لمحے ایک نئی افواہ جنم لے رہی ہے۔ کہیں سے ملک میں ایمرجنسی لگنے کی صدا آتی ہے، کوئی ایمرجنسی پلس کی بات کرتا ہے تو کوئی ساری حدیں پار کرکے مارشل لا لگنے کی سرگوشیاں کرتا ہے۔ رہی سہی کسر ملک کے وزیردفاع خواجہ آصف نے پوری کردی اور قومی ٹی وی چینلز پر انکشاف کیا کہ ملک میں آئینی میلٹ ڈاؤن ہونے جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں سب سے بڑی ذمہ داری اس ملک کی سیاسی جماعتوں، پارلیمان اور عدلیہ پر آتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ان افواہوں کو رد کریں۔
کیا سیاسی جماعتوں، پارلیمان یا عدلیہ کی طرف سے ایسا اشارہ آیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے وہ آئین اور قانون کے ساتھ کوئی مذاق یا کھلواڑ کسی صورت نہیں ہونے دیں گے؟ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے، ابھی تک اس حوالے سے کوئی مضبوط آواز سنائی نہیں دی۔ سیاسی جماعتیں اقتدار کی خاطر آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ پارلیمان ویسے ہی ایک ڈیبیٹنگ کلب بنا ہوا ہے جبکہ عدلیہ کے اپنے اندرونی اختلاف ہی ختم نہیں ہوتے۔ اب تو یہ اندرونی اختلافات بند کمروں اور چیمبرز سے نکل کر زبان زد عام ہوچکے ہیں۔ نہ کوئی سیاسی جماعت عوام کی باز پرس یا ان کے مسائل اجاگر کر رہی ہے نہ کوئی پارلیمان عوام کی بہتری اور بھلائی کے لیے قانون سازی کررہی ہے اور نہ ہی کوئی عدلیہ عام سائلین کو انصاف دینے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ زیر التوا مقدمات ہر گزرتے مہینے کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں بڑھ رہے ہیں لیکن عدلیہ سیاسی مقدمات میں الجھی ہوئی ہے۔
موجودہ حالات دیکھ کر مجھے نوے کی دہائی یاد آگئی۔ اس وقت بھی اسی طرح سیاسی جماعتیں آپس میں الجھی ہوئی تھیں۔ عدلیہ اسی طرح تقسیم اور اندرونی اختلافات کا شکار تھی جبکہ عوام کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
کہتے ہیں ہر سانحے پر اس سے پہلے اس کے حالات و واقعات اور محرکات کو ضرور دیکھنا چاہیے کیونکہ حادثہ ایک دم جنم نہیں لیتا۔ حالیہ حالات و واقعات دیکھ کر نوے کی دہائی میں عدلیہ کے اندرونی اختلافات کا ایک واقعہ یاد آگیا۔سوچا آپ کے ساتھ شیئر کرتا چلوں۔
اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کسی بیرونی دورے پر نہیں جاتے تھے۔ ان کو ڈر تھا کہ کہیں حکومت ان کی جگہ کسی اور کو چیف جسٹس مقرر نہ کردے۔انہی دنوں سعودی عرب میں ایک کانفرنس منعقد ہونا تھی، جسٹس سجاد علی شاہ کا بطور چیف جسٹس آف پاکستان وہاں جانا بھی ضروری تھا۔ چنانچہ وہ سعودی عرب چلے تو گئے لیکن insecurity کی وجہ سے اپنے پیچھے ایکٹنگ چیف جسٹس ہی کسی کو مقرر نہیں کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیف جسٹس کے بعد سینئیر موسٹ جج کو ایکٹنگ چیف جسٹس مقرر کرتے جو کہ آئین کے تحت عہدے کا حلف اٹھاتا لیکن جسٹس سجاد علی شاہ نے ایسا کچھ نہ کیا اور سعودی عرب روانہ ہو گئے۔
آپ کو علم ہے پاکستان میں ہر دور میں پیٹیشنرز کی کوئی کمی نہیں ہوتی تو پیچھے سے کسی نے فرمائشی پیٹیشن دائر کردی کہ سپریم کورٹ نامکمل ہے کیونکہ چیف جسٹس کے بیرون ملک دورے کی وجہ سے کوئی ایکٹنگ چیف جسٹس نہیں ہے۔
حکومت نے فوری طور پر ایکٹنگ چیف جسٹس لگادیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ کو سعودی عرب میں جیسے ہی اطلاع ملی انہوں نے دوسری دستیاب فلائٹ سے کانفرنس ادھوری چھوڑ کر پاکستان واپسی کی تیاری پکڑی۔ واپس آکر بطور چیف جسٹس انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جتنے بھی ان کے مخالف جج تھے سب کو سپریم کورٹ کی رجسٹریوں، کوئٹہ، کراچی، لاہور اور پشاور بھیج دیا تاکہ یہاں مرکز میں ان کے خلاف کوئی سازش نہ کرے۔ اور پرنسپل سیٹ یعنی سپریم کورٹ اسلام آباد میں اپنے چند ہم خیال ججز رکھے۔ پھر ہم نے دیکھا ججز کے یہی اندرونی اختلافات ہی پھر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی رخصتی کا سبب بنے۔
اگر ہم آج کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو اس وقت بھی عدلیہ کے اندر اسی طرح کے اختلافات ہیں۔ میڈیا ان اختلافات پر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کررہا ہے جبکہ سیاستدان آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ کوئی کسی کو جیل سے نکلوانے کی تگ و دو میں ہے تو کوئی اپنے اقتدار کو دوام بخشوانے کی۔ پارلیمان میں نہ کوئی قانون سازی ہورہی ہے نہ کوئی عوامی مسائل کے حل کے لیے مثبت ڈیبیٹ۔ سب اپنے اپنے چکروں میں ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مسائل اور اپنے اہداف ہیں۔ وہ ہر صورت سانحہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو سزا دلانا چاہتی ہے لیکن دلا نہیں پارہی۔ ہر ادارے کی فرسٹریشن نقطہ عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ ایسے ہی حالات میں ایمرجنسی، ایمرجنسی پلس یا مارشل لا کی سرگوشیاں ہمیشہ سننے کو ملتی ہیں۔ افواہوں کا بازار ایسے ہی ماحول میں گرم ہوتا ہے۔خدا نہ کرے کہ یہ ملک جو بڑی مشکل سے جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھا ہے، پھر سے اس پٹڑی سے اتر جائے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تمام اداروں کو اپنے ذاتی مفادات پس پشت ڈال کر اس ملک اور ملک کے عوام کے لیے سوچنا چاہیے۔ یہ ملک مزید کسی ایڈونچر کا متحمل ہو سکتا ہے نہ اس کے عوام مزید کوئی بوجھ اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں۔ آئیں! سب مل کر ان افواہوں اور سرگوشیوں کو نظرانداز کرکے ملک کے بارے سوچیں۔ کہیں دیر نہ ہو جائے۔