پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے حکومت کی عدالتی اصلاحات سے متعلق قانون سازی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو بحران سے نکالنے کا واحد راستہ آئینی ہے جو سپریم کورٹ سے گزرے گا۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں اس قسم کی قانون سازی کی کوششیں کی جارہی ہیں جو آئینی ترامیم کے بغیر ممکن نہیں۔ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات میں اضافہ تو کرسکتی ہے مگر اسے محدود نہین کرسکتی۔
شاہ محمود قریشی کے مطابق ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے جس میں ابتر معاشی صورتحال سمیت سیاسی عدم استحکام کے باوجود حکمرانوں کی ترجیحات سب کے سامنے ہیں۔
’توقع سپریم کورٹ سے ہے توقع اعلٰی عدلیہ سے ہے کہ اس بھنور سے ملک کو نکالیں گے اور بذریعہ انتخابات ہم دلدل سے نکلیں گے۔‘
اس موقع پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ انتخابات کے آئینی انعقاد کے معاملہ پر حکومت سپریم کورٹ کو شکست دینے کی کوشش کررہی ہے۔ ججز کو تقسیم کرنے کی کوشش سے سپریم کورٹ تو متاثر ہوگا ہی پاکستان کا آئین مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔
انتخابات میں تاخیر کے حکومتی موقف پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اگست میں اس حکومت کو تحلیل ہوجانا ہے تاکہ نگراں حکومت آسکے۔ ’تین ماہ میں کیا معجزہ ہوجائے گا؟ یہ تمام سیاسی جماعتیں سیاست میں بھی واپس آجائیں گی، معیشت بھی ٹھیک ہوجائے گی اور سیکیورٹی بھی۔۔لہذا یہ نہیں ہونا۔‘
فواد چوہدری کے مطابق اس وقت رائج ’باپردہ ماورائے آئین نظام‘ سے پردہ ہٹانا پڑے گا اور ملک مکمل طور پر ماورائے آئین نظام میں چلا جائے گا کیوںکہ آئین نوے روز کے بعد کسی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا۔
’نوے روز کے بعد جو بھی اس نظامِ حکومت کا حصہ ہوگا وہ آرٹیکل چھ کا مرتکب ہوگا۔ اس وقت ملک کو ظلم اور جبر کے ساتھ چلایا جارہا ہے تیسرا تو کوئی راستہ نہیں ہے۔‘
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے کہا کہ یہ حکومت بھی ایک ازخود نوٹس کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی جو انہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے لیا تھا لیکن اس وقت حکومتِ وقت اس اختیار پر معترض نہیں تھی۔
اسد عمر کے مطابق آئین ہی کے ذریعہ پیش رفت مسائل کا حل ہے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ ملک کو بحران سے نکالنے کا واحد راستہ آئینی ہے جو سپریم کورٹ سے گزرے گا۔ آئین کی عملداری کی ذمہ داری سپریم کورٹ پر عائد ہوتی ہے۔