ان دنوں پاکستان میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یعنی آئی پی پیز کا بہت نام لیا جارہا ہے۔ انہیں عوام کے بھاری بھرکم بجلی بلوں کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ اب بعض اہم شخصیات بھی ان آئی پی پیز پر ظلم و استحصال کا الزام عائد کر رہی ہیں اور انھیں ملکی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دے رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ان کمپنیوں کے مالکان کچھ اہم سیاسی و کاروباری پاکستانی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور ان کو گزشتہ مالی سال 2023-24 میں کتنے کیپیسٹی چارجز ادا کیے گئے ہیں؟
پاکستان میں بجلی بنانے والی کمپنیاں یعنی آئی پی پیز کی کل تعداد 100کے قریب ہے۔ ان میں سے 51 مختلف کمپنیوں اور گروپس کی ملکیت ہیں۔ 7 سیاسی شخصیات کی ملکیت ہیں، 18 چین، سنگاپور، ناروے سمیت بین الاقوامی کمپنیوں کی ملکیت ہیں، 7 حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب، جبکہ 13 آئی پی پیز پرائیویٹ افراد کی ملکیت ہیں۔
انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یعنی آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے باعث ہر سال اربوں روپے کی ادائیگی عوام سے بجلی بلوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے نیپرا نے ان IPPs کے ساتھ 2057 تک کے معاہدے کیے گئے ہیں یعنی آئندہ 33 برسوں تک بھی ان کمپنیوں کو ادائیگیاں جاری رہیں گی۔
وزارت توانائی کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں 2013 سے 24 تک کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں آئی پی پیز کو 8 ہزار 344 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی ہے۔ دستاویز کے مطابق گزشتہ مالی سال 2022-23 میں کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں آئی پی پیز کو 1300 ارب ادا کیے گئے جبکہ رواں سال 2 ہزار 10 ارب روپے ادا کرنا ہوں گے۔
سیاسی شخصیات کی آئی پی پیز
سلیمان شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز چنیوٹ پاور لمیٹڈ نامی آئی پی پی کے مالک ہیں۔ اس کمپنی کو مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں 11 جون 2014 کو لائسنس جاری کیا گیا اور 30 جون 2045 تک 62.4 میگاواٹ بجلی بنانے کا معاہدہ کیا گیا۔ گزشتہ سال اس آئی پی پی نے 33 فیصد بجلی بنائی جبکہ اس کمپنی کو 1 ارب 55 کروڑ روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔
جہانگیر خان ترین
سینئر سیاستدان اور ماضی میں پاکستان تحریک انصاف کی ’ اے ٹی ایم‘ سمجھے جانے والے جہانگیر خان ترین کے تین بجلی بنانے والے کارخانے ہیں۔ اے جے پاور پرائیویٹ لمیٹڈ، جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز یونٹ 2 اور جے ڈی ڈبلیو یونٹ 3۔ ایک آئی پی پی سے 12 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے اکتوبر 2015 سے مارچ 2041 جبکہ دیگر 2 سے مجموعی طور پر 52.70 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے ستمبر 2013 سے دسمبر 2043 تک کے معاہدے کیے گئے ہیں۔
جہانگیر خان ترین کے آئی پی پی جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز یونٹ 2 کو گزشتہ سال ایک ارب 9 کروڑ اور جے ڈی ڈبلیو یونٹ 3 کو 77 کروڑ روپے کے کیپیسٹی چارجز ادا کیے گئے۔
عبد الرزاق داؤد
سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر اور 1999 سے 2002 تک جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں شامل عبد الرزاق دائود روش پاکستان پاور لمیٹڈ نامی آئی پی پی کے مالک ہیں۔ ان کی کمپنی کو 28 اگست 2006 کو لائسنس جاری کیا گیا۔ اس کمپنی کے ساتھ 25 اگست 2029 تک 450 میگاواٹ بجلی بنانے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ اس کمپنی نے گزشتہ سال صرف 4 فیصد بجلی پیدا کی اور اسے 6 ارب 88 کروڑ روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔
ندیم بابر
سابق وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر دو آئی پی پیز کے مالک ہیں۔ ان کی کمپنی صبا پاور کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کو 26 اگست 2003 کو لائسنس جاری کیا گیا۔ اس کمپنی کے ساتھ 25 اگست 2029 تک 134 میگاواٹ بجلی بنانے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ کمپنی نے گزشتہ سال صرف 11 فیصد بجلی بنائی اور اس کمپنی کو 3 ارب 13 کروڑ روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔
ندیم بابر اس کے علاوہ ایک اور آئی پی پی اوریئنٹ پاور پراجیکٹ کے محمود گروپ کی شراکت داری کے ساتھ سے مالک ہیں۔ اس کمپنی کو 22 جولائی 2005 کو لائسنس جاری کیا گیا اور 31 اگست 2032 تک 229 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ اس کمپنی نے 32 فیصد بجلی پیدا کی اور اسے 5 ارب 80 لاکھ روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔
کاروباری شخصیت میاں منشا کی آئی پی پیز
پاکستان کے معروف کاروباری شخصیت میاں منشا کا منشاء گروپ چار آئی پی پیز کا مالک ہے۔ ان کی کمپنیوں اے ای ایس لالپیر پرائیویٹ لمیٹڈ کو 26 اگست 2003 کو لائسنس جاری کیا گیا۔ اس کمپنی کے ساتھ 25 اگست 2027 تک 362 میگاواٹ بجلی کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ اس کمپنی نے گزشتہ سال 25 فیصد بجلی پیدا کی۔ اسے 8 ارب 48 کروڑ روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔
منشاء گروپ کی دوسرے آئی پی پی اے ای ایس پاک جنریشن پرائیویٹ کمپنی کو 26 اگست 2003 کو لائسنس جاری کیا گیا۔ اس کمپنی کے ساتھ 25 اگست 2026 تک 365 میگاواٹ بجلی بنانے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ اس کمپنی نے گزشتہ سال 20 فیصد بجلی پیدا کی اور اسے 8 ارب 51 کروڑ روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔
منشاء گروپ کی تیسری آئی پی پی نشاط چونیاں پاور پراجیکٹ کو 6 ستمبر 2007 کو لائسنس جاری کیا گیا۔ اس کمپنی کے ساتھ 29 جون 2035 تک 200 میگاواٹ بجلی بنانے کا معاہدہ کیا گیا۔ اس کمپنی نے گزشتہ سال 19 فیصد بجلی پیدا کی اور اسے 4 ارب 17 کروڑ روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔
منشاء گروپ کی چوتھے آئی پی پی نشاط پاور پراجیکٹ کو 6 ستمبر 2007 کو لائسنس جاری کیا گیا۔ اس کمپنی کے ساتھ 30 دسمبر 2034 تک 200 میگاواٹ بجلی بنانے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ اس کمپنی نے گزشتہ سال 30 فیصد بجلی پیدا کی اور اسے 4 ارب 59 کروڑ روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔
سب سے زیادہ کیپیسٹی چارجز وصول کرنے والی آئ پی پیز
گزشتہ سال سب سے زیادہ کیپیسٹی چارجز چائنہ ہب نامی کمپنی کو 142 ارب 82 کروڑ روپے ادا کیے گئے، اس کمپنی سے 132 میگاواٹ بجلی بنانے کا معاہدہ کیا گیا۔ اس نے صرف 15 فیصد بجلی پیدا کی۔ اس کے بعد پورٹ قاسم آئی پی پی کو 121 ارب روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔ پورٹ قاسم سے 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا معاہدہ کیا گیا اور اس نے 18 فیصد بجلی پیدا کی۔ شنگھائی الیکٹرک تھر کول پاور جنریشن نامی آئی پی پی کو 121 ارب روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے، اس کمپنی سے 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا معاہدہ کیا گیا اور اس نے 68 فیصد بجلی پیدا کی۔
صفر یونٹ پیدا کرنے والے آئی پی پیز کو اربوں روپے کے کیپیسٹی چارجز کی ادائیگی
بجلی بنانے والی تین ایسی آئی پی پیز بھی ہیں جنہوں نے گزشتہ سال ایک یونٹ بجلی نہیں بنائی تاہم انہیں اربوں روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔
حبکو کمپنی کے ساتھ 1292 میگاواٹ بجلی بنانے کا معاہدہ کیا گیا تاہم اس کمپنی نے گزشتہ سال ایک یونٹ بھی نہیں بنایا۔ اس کمپنی کو 24 ارب 23 کروڑ روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔ کیپکو نامی کمپنی کے ساتھ 1638 میگاواٹ بجلی بنانے کا معاہدہ کیا گیا۔ اس کمپنی نے بھی گزشتہ سال ایک یونٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی اور اس کمپنی کو بھی 22 ارب 16 کروڑ روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے۔