فلسطینی دھڑوں بشمول حماس اور الفتح نے چین میں منگل کو ہونے والے مذاکرات میں باہمی تقسیم کو ختم کرنے اور عبوری قومی اتحاد کی حکومت بنانے پر اتفاق کرلیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق چینی وزارت خارجہ کے مطابق بیجنگ اعلامیے پر 21 سے 23 جولائی تک چین کے دارالحکومت میں منعقدہ 14 فلسطینی دھڑوں کے درمیان مصالحتی مذاکرات کی اختتامی تقریب میں دستخط کردیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات کے لیے امریکی تجویز قبول کرلی
واضح رہے کہ مصر اور دیگر عرب ممالک کی حماس اور الفتح کے درمیان مفاہمت کی پچھلی کوششیں 17 سال سے جاری اقتدار کی تقسیم کے تنازعے کو ختم کرنے میں ناکام رہی تھیں جس نے فلسطینیوں کی سیاسی امنگوں کو کمزور کر دیا ہے۔
حماس کے سینیئر عہدیدار حسام بدران نے کہا ہے کہ بیجنگ اعلامیے کا سب سے اہم نکتہ فلسطینیوں کے معاملات کو سنبھالنے کے لیے فلسطینی قومی اتحاد کی حکومت کی تشکیل ہے۔
بدران نے کہا کہ یہ جنگ کے بعد فلسطینی امور کے انتظام میں علاقائی اور بین الاقوامی مداخلتوں سے محفوظ رکھے گا۔
یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی نشاندہی کرتا ہے تاہم اسرائیل نے اتحاد کی ایسی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کا مقصد ایران کے حمایت یافتہ حماس گروپ کو تباہ کرنا ہے اور وہ غزہ کی جنگ کے بعد کی انتظامیہ میں اس کے کسی بھی رول کی مخالفت کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: باہمی مفاہمت کی خاطر فلسطینی گروپوں کی چین میں اہم ملاقات
اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ایکس پر جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دہشت گردی کو مسترد کرنے کے بجائے فتح رہنما محمود عباس نے قاتلوں اور عصمت دری کرنے والوں کو گلے لگا کر اپنا اصلی چہرہ ظاہر کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ حماس کی حکمرانی کو کچل دیا جائے گا اسرائیل کی سلامتی مکمل طور پر اسرائیل کے ہاتھ میں رہے گی۔
بدران کا کہنا ہے کہ قومی اتحاد کی حکومت غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے معاملات کا انتظام، تعمیر نو کی نگرانی اور انتخابات کے لیے سازگار حالات بنائے گی۔
اس وقت حماس غزہ چلاتی ہے اور الفتح فلسطینی اتھارٹی کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس کا اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں محدود کنٹرول ہے۔
معاہدے کی تفصیلات میں نئی حکومت کی تشکیل کے لیے ٹائم فریم کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جنگی مہم سے وزیر دفاع یوآو گیلنٹ مایوس کیوں؟
مارچ میں الفتح کے سربراہ اور فلسطینی صدر محمود عباس نے اپنے ایک قریبی ساتھی محمد مصطفیٰ کی قیادت میں ایک نئی حکومت مقرر کی تھی۔
فلسطینی امور کے ماہر اشرف ابوالہول نے کہا ہے کہ اس طرح کے سابقہ اعلانات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا اور امریکی منظوری کے بغیر کچھ نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ حماس کے ساتھ اتحاد کی حکومت کی تشکیل کو امریکا، اسرائیل اور برطانیہ نے مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگ کے بعد حماس کو کسی بھی کردار سے خارج کرنے کے لیے ان ممالک کے درمیان اتفاق رائے ہے۔
مصر کے سرکاری اخبار الاحرام کے مینیجنگ ایڈیٹر ابوالہول نے کہا کہ چین میں جو کچھ ہوا وہ محض ایک میٹنگ کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ فلسطینی دھڑوں کے درمیان مسائل کو صرف دنوں میں حل کرنا ناممکن ہے۔