سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے حال ہی میں امریکا میں نیویارک سٹی بار ایسوسی ایشن کے ارکان سے خطاب کے دوران جسٹس من اللہ نے پاکستان کے عدالتی چیلنجز اور سیاسی مداخلتوں پر اظہار خیال کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آئین توڑنے والے آمروں نے ایک دن بھی جیل میں نہیں گزارا، جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ
ہائی پروفائل کیسز اور پاکستان میں سیاسی معاملات میں عدلیہ کے کردار کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب ملک میں مارشل لا کا خطرہ در پیش ہو عدالتیں کھلی ہونی چاہییں۔
مارشل لا کا خطرہ ہو تو عدالتوں کو اوپن ہونا چاہئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بھی رات کو کھولی گئی کیونکہ ARY نے ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ مارشل لا لگنے والا ہے۔ جب ضیاء الحق اور پرویز مشرف منتخب وزرائے اعظم کو ہٹا رہے تھے تو کاش تب بھی عدالتیں اوپن ہوتیں، جسٹس اطہر من اللہ کا نیویارک… pic.twitter.com/6q4yyFX9mh
— Awais Yousaf Zai (@awaisReporter) July 24, 2024
تاسف کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کاش عدالتیں 5 جولائی کو کھلی ہوتیں جب جنرل ضیاءالحق ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹارہے تھے اسی طرح انہیں 12 اکتوبر کو بھی کھلا ہونا چاہییے تھا جب جنرل پرویز مشرف نے ایک منتخب وزیراعظم کو معزول کیا۔
مزید پڑھیں: ہم کالی بھیڑیں نہیں کالی بھڑیں ہیں، جسٹس اطہر من اللہ
سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور کے آخری دنوں کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت اے آروائی سمیت دیگرمیڈیا نے ایسی صورتحال کی منظر کشی کررکھی تھی کہ جس میں مارشل لا کا نفاذ بس ہوا ہی چاہتا تھا۔
’اگر کسی نے اس وقت تک وزیر اعظم عمران خان کو کسی غیر آئینی طریقہ سے ہٹانے کی کوشش کی ہوتی تو پھریہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا امتحان ہوتا کہ وہ آئین کو بالادست بنانے کے قابل ہے کہ نہیں۔‘
مزید پڑھیں: ہائیکورٹ ججوں کے خط پر تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل، وکلا کمیونٹی کا خیرمقدم
خطاب کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 جج جنہوں نے سپریم کورٹ کوعدالتی امورمیں ایجنسیز کی مداخلت کے حوالے سے خط لکھا تھا ان میں سے 5 جج وہ ہیں جن کی نشاندہی اور تعیناتی کی سفارش انہوں نے بحیثیت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ خود کی تھی۔