ایڈز کے خاتمے کے لیے قائم عالمی اتحاد نے اس امر پر زور دیا ہے کہ رواں دہائی کے اختتام تک ایڈز کا خاتمہ کرنے کے لیے ایسے ممالک میں ایچ آئی وی خدمات میں فوری اضافے کی ضرورت ہے جہاں اس بیماری کا پھیلاؤ سب سے زیادہ ہے۔
بچوں میں ایڈز کے خاتمے کے لیے قائم کردہ عالمی اتحاد کی نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2000 کے بعد 14 سال تک عمر کے 40 لاکھ بچوں کی زندگی کو ایڈز سے تحفظ مہیا کیا گیا ہے جو ایک نمایاں کامیابی ہے، بیماری کے مکمل خاتمے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں : بلوچستان میں ایڈز کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ، مہلک بیماری کیوں پھیل رہی ہے؟
عالمی اتحاد اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف)، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 2022 میں ایچ آئی وی (ایڈز) پر مشترکہ پروگرام شروع کیا تھا، اس پروگرام میں براعظم افریقہ کے 12 ممالک کو شامل کیا گیا ہے۔
ان اداروں نے ‘تصور کی حقیقت میں تبدیلی’ کے عنوان سے اس رپورٹ میں کہا ہے کہ نتائج حوصلہ افزا ہیں لیکن صرف 40 لاکھ بچوں کو تحفظ مہیا کرنا کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں، بیماری کا خطرہ دور کرنے کی غرض سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
’اس بیماری کے علاج کے معاملے میں اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘
‘ڈبلیو ایچ او’ کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کے مطابق اگرچہ حاملہ خواتین کی ایچ آئی وی کی تشخیص اور علاج کی سہولیات تک رسائی اور اس بیماری کی ان کے بچوں کو منتقلی روکنے کے لیے نمایاں کام ہوا ہے تاہم بچوں میں اس بیماری کے علاج کے معاملے میں اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں : خیبرپختونخوا میں ایچ آئی وی پازیٹیو کیسز تقریباً 7 ہزار تک پہنچ گئے
ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا ہے کہ عالمی اتحاد کے رکن ممالک میں باہمی تعاون اور مریضوں تک اس کی رسائی میں اضافے کی ضرورت ہے، اس کام کو مصمم ارادے، توجہ اور تمام متاثرہ ماؤں، بچوں اور بالغوں کے ساتھ یکجہتی سے کرنا ہو گا۔
’اتحاد میں شامل ممالک اہداف کے حصول میں کامیابی ہوتے دکھائی نہیں دیتے‘
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس مسئلے پر قابو پانے میں نمایاں کامیابیوں کے باوجود اتحاد میں شامل ممالک سمیت پوری دنیا بچوں اور بالغوں میں ایچ آئی وی کے خاتمے کے حوالے سے اہداف کے حصول میں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتے، ایچ آئی وی کے نئے متاثرین اور ایڈز سے ہونے والی اموات کی تعداد میں کمی کی صورتحال کو دیکھا جائے تو حالیہ برسوں میں بڑی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی۔
’نومولود بچوں میں ایچ آئی وی کی منتقلی کو یقینی طور پر روکا جاسکتا ہے‘
‘یو این ایڈز’ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ونی بیانیما نے کہا ہے کہ وہ نوجوان خواتین کو صحت مند رکھنے اور ہر عمر کے بچوں کو ایچ آئی وی سے تحفظ دینے کے لیے بہت سے ممالک میں اٹھائے گئے اقدامات کو سراہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : ایڈز کیا ہے، آپ اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ کیا یہ لاعلاج مرض ہے؟
ونی بیانیما کے مطابق دور حاضر میں دستیاب ادویات اور سائنس کی بدولت تمام نومولود بچوں میں ایچ آئی وی کی منتقلی کو یقینی طور پر روکا جاسکتا ہے اور جو بچے اس بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں، ان کا علاج برقرار رکھنا بھی ممکن ہے۔ تاہم اس کے لیے تمام بچوں کی علاج تک رسائی یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔
رپورٹ کے مطابق اتحاد میں شامل بہت سے ممالک نے ایچ آئی وی سے متاثرہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو زندگی بھر کے لیے اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی کی فراہمی میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ یوگنڈا میں ایچ آئی وی سے متاثرہ ایسی تمام خواتین کو یہ علاج میسر ہے۔
’گزشتہ سال ایڈز سے 76 ہزار اموات ہوئیں‘
رپورٹ کے مطابق 2023 میں 14 سال تک عمر کے ایک لاکھ 20 ہزار بچے ایچ آئی وی سے متاثر ہوئے اور ان میں 77 ہزار کا تعلق عالمی اتحاد میں شامل ممالک سے تھا۔ دنیا بھر میں گزشتہ سال ایڈز سے 76 ہزار اموات ہوئیں جن میں 49 ہزار ان ممالک سے تعلق رکھنے والے اسی عمر کے بچے تھے۔
خواتین کی ایچ آئی وی کے علاج تک رسائی مشکل اور حکومتی ذمہ داری
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بچوں اور بڑوں کی ایچ آئی وی کے علاج تک رسائی میں بڑے پیمانے پر فرق پایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ہر سال ڈھائی لاکھ افراد ٹی بی کے باعث جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں
یونیسف میں ایچ آئی وی سے متعلق شعبے کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر انوریتا بینز نے کہا ہے کہ بروقت اور موثر تشخیص اور علاج کے بغیر ایچ آئی اوی بچوں اور بالغوں کی صحت اور بہبود کو متاثر کرتا رہے گا اور ان کی زندگی خطرے میں رہے گی۔
انوریتا بین کے مطابق صنفی عدم مساوات اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے باعث خواتین کی ایچ آئی وی کے علاج تک رسائی مشکل ہوتی ہے، ایڈز کے مرد و خواتین مریضوں کو یکساں طور سے علاج کی فراہمی کے لیے حکومتوں کو اس بیماری کی تشخیص سے متعلق اختراعی اقدامات میں اضافے کے لیے مدد دینا ہوگی اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں اور بالغوں کو ضرورت کے مطابق علاج اور مدد میسر آسکے۔