9 مئی مقدمات: عمران خان کو لاہور ہائیکورٹ سے ریلیف مل گیا

جمعرات 25 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کا 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ اور ان کی ویڈیو لنک پر حاضری کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ کے 12 مقدمات میں عمران خان کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

جمعرات کو جسٹس طارق سلیم شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ بشمول جسٹس انوارالحق پنوں نے اس کیس کی سماعت کی جس میں عمران خان نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے جسمانی ریمانڈ دیتے وقت ریکارڈ کا درست جائزہ نہیں لیا اور قانون کو بھی مدنظر نہیں رکھا لہٰذا ان کے خلاف 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دیے جائیں۔

قبل ازیں 15 جولائی کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پولیس کی بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 9 مئی کے 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر 10 روزہ ریمانڈ دے دیا تھا جسے عمران خان نے لاہور ہائیکورٹ میں چلینج کردیا تھا۔

درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے 24 جولائی کو لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان پر درج مقدمات سے متعلق پراسیکیوٹر جنرل فرہاد علی شاہ کو حکم دیا تھا کہ وہ تفصیلی رپورٹ جمع کرادیں جس کی تعمیل ہوگئی۔

مزید پڑھیے: عمران خان کی جناح ہاؤس حملہ سمیت لاہور میں درج 9 مئی کے مقدمات میں گرفتاری ڈال دی گئی

جمعرات کو سماعت کے دوران جسٹس انوارا الحق پنوں نے ریمارکس دیے کہ جب درخواست گزار کو امید ہوئی کہ وہ جیل سے باہر آ جائے گا تب آپ نے ان مقدمات میں گرفتاری ڈال دی حالاں کہ قانون تو یہ ہے کہ جیسے ہی آپ کو ملزم کا پتا چلے آپ اسے گرفتار کریں، آپ نے پہلے کیوں گرفتار نہیں کیا؟

اس پر پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ ملزم تب عبوری ضمانت پر تھے، گرفتار نہیں کیے جاسکتے تھے۔

ملزم کو فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا، عدالت

جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ پولی گرافک ٹیسٹ کے لیے ریمانڈ کی کیا ضرورت ہے؟ 15 یا 20 منٹ کے لیے کچھ ٹیسٹ کرنے ہیں تو اس کے لیے جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے؟

انہوں نے کہا کہ  آپ ملزم کو فوٹو گرامیٹرک ٹیسٹ کے لیے مجبور تو نہیں کرسکتے، جب کہ جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کب خیال آیا کہ اب ماڈرن ڈیوائسز کی طرف جانا چاہیے؟ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا کہ عمران خان نے خود کہا تھا کہ انہیں جان کا خطرہ ہے وہ عدالتوں میں پیش نہیں ہو سکتے، درخواست گزار ضمانت پر تھے اس لیے پہلے گرفتاری نہیں ڈالی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی انسداد دہشتگردی عدالت سے ضمانتیں خارج ہوئیں ہم نے گرفتار کر لیا، پیمرا کی رپورٹس موجود ہیں ہمیں تفتیش کرنی ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

بعد ازاں عدالت نے کارروائی کچھ دیر کے ملتوی کی اور پھر سماعت کے دوبارہ آغاز پر پراسکیوٹر جنرل پنجاب نے بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاونٹس کی تفصیلات عدالت کے سامنے پیش کر دیں۔

انہوں نے عمران خان کی ٹویئٹس پڑھ کر سنائیں اور بتایا کہ ایک مخصوص بیانیہ بنایا گیا۔ اس پر جسٹس انوار الحق پنوں نے کہا کہ جو آپ نے ٹوئٹ پڑھا ہے اس سے زیادہ دھمکیاں تو آج کل ججز کو مل رہی ہیں۔

اگر درخواست گزار حملے لیڈ کرتا تب جرم ہوتا، عدالت کے ریمارکس

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر درخواست گزار نے احتجاج کی کال دی تو یہ جرم کیسے بنے گا؟ اگر حملوں کو لیڈ کرتا تو پھر ضرور یہ جرم ہوتا

جسٹس انوارالحق پنوں نے کہا کہ درخواست گزار کے خلاف کیا مواد ہے؟ پراسیکیوٹر جنرل خود پڑھیں گے، ہم نہیں پڑھیں گے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج کو دیکھنا چاہیے تھا کہ ریمانڈ بنتا بھی ہے کہ نہیں۔

اس پر پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے بتایا کہ سیکیورٹی برانچ کے افسر نے بیان دیا ہے کہ عمران خان نے ہدایت جاری کی تھی کہ اگر مجھے رینجرز یا فوج گرفتار کرتی ہے تو ملک کو بند کریں، جی ایچ کیو پر حملہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: 2023: پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے قانونی جنگ کا سال

بعد ازاں پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے عمران خان کی درخواستوں کو مسترد کرنے کی استدعا کر دی۔

پراسکیوٹر جنرل پنجاب نے مؤقف اپنایا کہ ہماری تفتیش متاثر ہو گی لہذا عدالت درخواستیں خارج کرے، جن موبائل فونز سے ٹوئٹس کیے گئے وہ بھی برآمد کرنے ہیں۔

آپ ملزم کو جیل سے باہر نہیں لےجاسکتے تو برآمدگی کیسے کریں گے، عدالت

جسٹس انوارالحق پنوں نے کہا کہ اگر برآمدگی کرنی بھی ہے تو آپ تو درخواست گزار کو جیل سے باہر نہیں لے جا سکتے تو پھر برآمدگی کیسے کریں گے؟

اس پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کے دلائل مکمل ہو گئے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ جس سرکاری وکیل کا بیان پڑھا گیا اس کیس میں تو عمران خان کی ضمانت ہو چکی ہے، 9 مقدمات میں پولیس 425 دن سوئی رہی اور 3 مقدمات میں پولیس 170 دن سوئی رہی۔

مزید پڑھیے: کیا عمران خان گرفتاری سے گھبرا رہے ہیں؟؟

سلمان صفدر نے بتایا کہ جسمانی ریمانڈ کے لیے ضروری ہےکہ ملزم کو عدالت میں ہی پیش کیا جائے، ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ عمران خان کو پیش نہ کیا جا سکے، سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، سیکیورٹی کا سہارا لے کر یہ جان بوجھ کر عمران خان کو جسمانی ریمانڈ کے لیے پیش نہیں کر رہے۔

لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کا 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ اور ہوئے  جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دے دیا اور درخواست گزار کی ویڈیو لنک پر حاضری کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp